Search
Latest topics
تفسیر ابن کثیر منھج اور خصوصیات
Page 1 of 1
تفسیر ابن کثیر منھج اور خصوصیات
تفسیر ابن کثیر منھج اور خصوصیات
ڈاکٹر محمد اکبر ملک،
لیکچررشعبہ اسلامیات، گورنمنٹ ایس ای کالج بہاول پور
عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر ۷۰۱ہجری (۱) میں شام کے شہر بصریٰ کے مضافات میں ”مجدل“ نامی بستی میں پیدا ہوئے۔ (۲) اور دمشق میں تعلیم و تربیت پائی۔ آپ نے اپنے عہد کے ممتاز علماء سے استفادہ کیا اور تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، تاریخ، علم الرجال اور نحو عربیت میں مہارت حاصل کی۔ (۳) آپ نے ۷۷۴ہجری میں دمشق میں وفات پائی اور مقبرہ صوفیہ میں مدفون ہوئے۔ (۴)
امام ابن کثیر بحیثیت مفسر، محدث، موٴرخ اور نقاد ایک مسلمہ حیثیت کے حامل ہیں۔ آپ نے علوم شرعیہ میں متعدد بلند پایہ کتب تحریر کیں۔ ”تفسیر القرآن العظیم“ اور ضخیم تاریخ ”البدایہ والنہایہ“ آپ کی معروف تصانیف ہیں جن کی بدولت آپ کو شہر ت دوام حاصل ہوئی۔ زیر نظر مضمون اول الذکر کتاب کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔
تعارف تفسیر:
علامہ ابن کثیر نے قرآن کی جو تفسیر لکھی وہ عموماً تفسیرابن کثیر کے نام سے معروف ہے اور قرآن کریم کی تفاسیر ماثورہ میں بہت شہرت رکھتی ہے۔ اس میں موٴلف نے مفسرین سلف کے تفسیری اقوال کو یکجا کرنے کا اہتمام کیا ہے اور آیات کی تفسیر احادیث مرفوعہ اور اقوال و آثار کی روشنی میں کی ہے۔ تفسیر ابن جریر کے بعد اس تفسیر کو سب سے زیادہ معتبر خیال کیا جاتا ہے۔ اس کا قلمی نسخہ کتب خانہ خدیو یہ مصر میں موجود ہے۔ یہ تفسیر دس جلدوں میں تھی۔ ۱۳۰۰ء میں پہلی مرتبہ نواب صدیق حسن خان کی تفسیر ”فتح البیان“ کے حاشیہ پر بولاق، مصر سے شائع ہوئی۔ ۱۳۴۳ء میں تفسیر بغوی کے ہمراہ نو جلدوں میں مطبع المنار، مصر سے شائع ہوئی۔ پھر ۱۳۸۴ء میں اس کو تفسیر بغوی سے الگ کر کے بڑے سائز کی چار جلدوں میں مطبع المنار سے شائع کیا گیا۔ بعدازاں یہ کتاب متعدد بار شائع ہوئی ہے۔ احمد محمد شاکر نے اس کو بحذف اسانید شائع کیا ہے۔ محققین نے اس پر تعلیقات اور حاشیے تحریر کیے ہیں۔ سید رشید رضا کا تحقیقی حاشیہ مشہور ہے۔ علامہ احمد محمد شاکر (م۱۹۵۸) نے ”عمدة التفسیر عن الحافظ ابن کثیر“ کے نام سے اس کی تلخیص کی ہے۔ اس میں آپ نے عمدہ علمی فوائد جمع کیے ہیں۔ لیکن یہ نامکمل ہے۔ اسکی پانچ جلدیں طبع ہو چکی ہیں اور اختتام سورة انفال کی آٹھویں آیت پر ہوتا ہے۔
محمد علی صابونی نے ”تفسیر ابن کثیر“ کو تین جلدوں میں مختصر کیا اور ”مختصرتفسیر ابن کثیر“ کے نام سے اسے ۱۳۹۳ء میں مطبع دارالقرآن الکریم، بیروت سے شائع کیا بعد ازاں محمد نسیب رفاعی نے اس کو چار جلدوں میں مختصر کیا اور اسے ”تیسرالعلی القدیر لاختصار تفسیر ابن کثیر“ کے نام سے موسوم کیا۔ یہ ۱۳۹۲ء میں پہلی مرتبہ بیروت سے شائع ہوئی۔
مآخذ :
علامہ ابن کثیر نے اپنی ”تفسیر“ کی ترتیب و تشکیل میں سینکڑوں کتب سے استفادہ کیا ہے اور بے شمار علماء کے اقوال و آراء کو اپنی تصنیف کی زینت بنایا ہے۔ چند اہم مآخذ کے نام یہ ہیں۔
تفاسیر قرآن :
طبری، قرطبی، رازی، ابن عطیہ، ابو مسلم الاصفہانی، واحدی، زمخشری، وکیع بن جراح، سدی، ابن ابی حاتم، سنید بن داؤد، عبد بن حمید، ابن مردویہ وغیرہ۔
علوم قرآن :
فضائل القرآن ابوعبیدہ القاسم، مقدمہ فی اصول تفسیر ابن تیمیہ وغیرہ۔
کتب حدیث:
صحاح ستہ، صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمہ، مؤطا امام مالک، مستدرک حاکم، سنن دارقطنی، مسند امام شافعی، مسند دارمی، مسند ابویعلی الموصلی، مسند عبد بن حمید، مسند ابو بکر البزار، معجم کبیر طبرانی وغیرہ۔
کتب تراجم اور جرح و تعدیل:
التاریخ الکبیر امام بخاری، مشکل الحدیث ابو جعفر الطحاوی، الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ابن عبدالبر، الموضوعات ابن الجوزی وغیرہ۔
کتب سیرت و تاریخ:
سیرت ابن اسحاق، سیرت ابن ہشام، مغازی سعید بن یحییٰ اموی، مغازی واقدی، دلائل نبوة بیہقی، الروض الانف سھیلی، التنویرفی مولد السراج المنیر عمر بن وحیہ الکلبی، تاریخ ابن عساکر وغیرہ۔
فقہ و کلام:
کتاب الام امام شافعی، الارشادفی الکلام امام الحرمین، کتاب الاموال ابوعبیدالقاسم، الاشراف علی مذاہب الاشراف ابن ھبیر ہ وغیرہ۔
لغات:
الصحاح ابونصر جوہری، معانی القرآن ابن زیاد الفراء وغیرہ۔
ان مصادر کے علاوہ فضائل شافعی ابن ابی حاتم، کتاب الآثار و الصفات بیہقی، کشف الغطاء فی تبیین الصلوٰ ة الوسطیٰ و میاطی، کتاب التفکر والا اعتبار ابن ابی الدنیا، السر المکتوم رازی اور دیگر متعدد کتب کے حوالے بھی ہمیں زیر بحث کتاب میں ملتے ہیں، جن سے ابن کثیر کے وسعت مطالعہ اور تحقیقی میدان میں دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔
حافظ ابن کثیر نے اپنی کئی تصانیف کے حوالے بھی ”تفسیر“ میں دئیے ہیں، مثلاً البدایہ والنھایہ کتاب السیرة الاحکام الکبیر صفتہ النار، احادیث الاصول، جزء فی ذکر تطہیر المساجد، جزء فی الصلوٰة الوسطیٰ، جزء فی ذکر فضل یوم عرفہ، جزء فی حدیث الصور وغیرہ۔ (۵)۔
منھج:
تفسیرکے اصولوں کا التزام :
علامہ ابن کثیر نے زیر تبصرہ کتاب کا نہایت مفصل مقدمہ تحریر کیا ہے اور تفسیر کے درج ذیل اصول متعین کیے ہیں: تفسیر القرآن بالقرآن۔ تفسیر القرآن بالسنتہ۔ تفسیر القرآن باقوال الصحابہ۔ تفسیر القرآن باقوال التابعین(۶)
یہ مرکزی اور بنیادی اصول تفسیر ابن کثیر میں یکساں طور پر بالترتیب نظر آتے ہیں۔ امام موصوف سلیس اور مختصرعبارت میں آیات کی تفسیر کرتے ہیں ایک آیت کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے کئی قرآنی آیات یکے بعد دیگرے پیش کرتے ہیں اور اس سے متعلق جملہ معلوم احادیث ذکر کرتے ہیں، بعدازاں صحابہ،تابعین اور تبع تابعین کے اقوال و آثاردرج کرتے ہیں۔ اس انداز میں مثالیں ان کی تفسیر میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ سورة المومنون کی آیت۵۰ :
”وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّہ اٰیٰةًً وَّاٰوَیْنٰھُمَآ اِلٰی رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ“
کی تفسیر میں متعددروایات و اقوال نقل کیے ہیں اور مختلف مفاہیم بیان کیے ہیں۔ ایک مفہوم کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
”یہ مفہوم زیادہ ”واضح اور ظاہر ہے، اس لیے کہ دوسری آیت میں بھی اس کا تذکرہ ہے، اور قرآن“ کے بعض حصے دوسرے حصوں کی تفسیر کرتے ہیں اور یہی سب سے عمدہ طریقہ تفسیرہے، اس کے بعد صحیح حدیثوں کا اور ان کے بعد آثار کا نمبر آتا ہے۔" (۷)
نقد و جرح:
حافظ ابن کثیر ایک بلند پایہ محدث تھے، اس لیے انہوں نے محدثانہ طریق پر یہ کتاب مرتب کی ہے اور نہایت احتیاط سے صحیح حدیثوں کے انتخاب کی کوشش کی ہے۔ وہ دوران بحث جرح و تعدیل کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے صحیح روایات کو نکھار کر پیش کرتے ہیں،بعض روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں جبکہ غلط اور فاسد روایتوں کی تردید کرتے ہیں، مثلاً آیت ”یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ“ (الانبیاء: ۱۰۴) کے بارے میں ابن عمر سے روایت ہے کہ سجل آنحضور کے ایک کاتب کا نام تھا۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے ابن کثیر تحریر کرتے ہیں:
”یہ منکر روایت ہے اور یہ قطعاً صحیح نہیں۔ ابن عباس سے بھی جو روایت بیان کی جاتی ہے، وہ ابوداؤد میں ہونے کے باوجود غلط ہے۔ حفاظ کی ایک جماعت نے اس کی وضعیت پر ایک مستقل رسالہ تحریر کیا ہے اور ابن جریر نے بھی اس کا نہایت پر زور رد کیا ہے۔ اس روایت کے ضعیف ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ کے تمام کاتبین وحی نہایت مشہور لوگ ہیں ان کے نام معروف ہیں۔ صحابہ میں بھی کسی کا نام سجل نہ تھا۔" (۸)
علامہ ابن کثیر مختلف روایتوں کے متعدد طرق و اسناد کا ذکر کے روات پر بھی جرح کرتے ہیں مثلاً سورة البقرة کی آیت ۱۸۵:
”ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰاتٍ مِّنَ الْھُدٰی"
کے تحت ابومعشر نجیح بن عبد الرحمن المدنی کو ضعیف قرار دیا ہے (۹) اسی طرح سورہ مذکورہ کی آیت ۲۵۱:
”وَ لَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ“
کی تفسیر میں مختلف طرق سے ایک روایت بیان کی ہے اور یحییٰ بن سعید کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (۱۰)
سورة نساء کی آیت۴۳:
”یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوٰةَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا“
کی تفسیر میں سالم بن ابی حفصہ کو متروک اور ان کے شیخ عطیہ کوضعیف قرار دیا ہے۔ (۱۱) اسی سورت کی آیت ۹۳:
”وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مَُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہ جَھَنَّمُ الخ
کے سلسلے میں فرماتے ہیں۔ ابن مردویہ میں حدیث ہے کہ جان بوجھ کر ایمان دار کو مار ڈالنے والا کافر ہے یہ حدیث منکر ہے اور اس کی اسناد میں بہت کلام ہے۔ (۱۲) ابن کثیر نے حدیث کے ساتھ ساتھ آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی کثرت سے نقل کئے ہیں لیکن ان کی صحت جانچنے کے لئے یہاں بھی انہوں نے بحث وتنقید کا معیار برقرار رکھا ہے اور ان کی تائید وتردید میں اپنی معتبر رائے کا اظہار کیا ہے مثلاً سورة النساء کی آیت ۴۱:
”فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَہِیْدٍ الخ“
کی تفسیر میں ابوعبداللہ قرطبی کی کتاب ”تذکرہ“ کے حوالے سے حضرت سعید بن مسّیب کا قول نقل کرتے ہیں اور پھرفرماتے ہیں۔ ”یہ اثر ہے اور اس کی سند میں انقطاع ہے۔ اس میں ایک راوی مبُہم ہے، جس کا نام ہی نہیں نیز یہ سعید بن مسیب کا قول ہے جو حدیث مرفوع بیان ہی نہیں کرتے۔ " (۱۳)
جرح وقدح کے ضمن میں ابن کثیر تاریخ غلطیوں اور حوالوں کی بھی تردید کرتے ہیں،مثلاً
”واذا تتلیٰ علیھم اْٰیٰتناٰ قالو اقد سمعنا لونشآ ء لقلنا مثل ھذا۔ ۔ ۔ الخ (الانفال: ۳۱)
کے تحت لکھتے ہیں:
”حضور نے بدر کے روز تین قیدیوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ (۱) عقبہ بن ابی معیط (۲) طعیمہ بن عدی
(۳) نضر بن حارث۔ سعید بن جبیر نے ایک روایت میں طعیمہ کی بجائے مطعم بن عدی کا نام بتایا ہے۔ یہ بات غلط ہے، کیونکہ مطعم بن عدی تو بدر کے روز زندہ ہی نہیں تھا، اس لیے اس روز حضور نے فرمایا تھا کہ اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور ان مقتولین میں سے کسی کا سوال کرتا میں تو اس کو وہ قیدی دے دیتا۔ آپ نے یہ اس لیے فرمایا تھاکہ مطعم نے آنحضرت کو اس وقت تحفظ دیا تھا جب آپ طائف کے ظالموں سے پیچھا چھڑا کر مکہ واپس آرہے تھے۔" (۱۴)
شان نزول کا بیان:
اگر کسی سورة یا آیت کا شان نزول ہے تو اما م ابن کثیر اپنی ”تفسیر“ میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرة کی آیت ۱۰۹:
”ودکثیر من اہل الکتاب لویر دونکم من بعد ایمانکم۔ ۔ ۔ الخ“
کے تحت لکھتے ہیں:
”ابن عباس سے روایت ہے کہ حی بن اخطب اور ابویا سر بن اخطب دونوں یہودی مسلمانوں کے سب سے زیادہ حاسد تھے اور وہ لوگوں کو اسلام سے روکتے تھے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ زہری کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف شاعر تھا اور وہ اپنی شاعری میں نبی کی ہجو کیا کرتا تھا۔ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔" (۱۵) سورة اخلاص کا شان نزول اس طرح بیان کیا ہے:
”مسند احمد میں ہے کہ مشرکین نے حضور سے کہا اپنے رب کے اوصاف بیان کرو اس پر یہ آیت اتری اور حافظ ابویعلی موصلی کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول کریم سے یہ سوال کیا اس کے جواب میں یہ سورہ اتری۔ (۱۶)
فقہی احکام کا بیان :
ابن کثیر احکام پر مشتمل آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فقہی مسائل پر بحث کرتے ہیں اور اس سلسلے میں فقہا کے اختلافی اقوال و دلائل بیان کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرہ کی آیت
”قد نری تقلب وجھک فی السماء۔ ۔ الخ“
کے تحت لکھتے ہیں: ”مالکیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نمازی حالت نماز میں اپنے سامنے اپنی نظر یں رکھے نہ کہ سجدہ کی جگہ جیسا کہ شافعی، احمد اور ابو حنیفہ کا مسلک ہے، اس لیے کہ آیت کے لفظ یہ ہیں۔
”فول و جھک شطر المسجد الحرام"
یعنی مسجد حرام کی طرف منہ کرو اور اگرسجدے کی جگہ نظر جمانا چاہے گا تو اسے قدرے جھکنا پڑے گا اور یہ تکلف خشوع کے خلاف ہو گا۔ بعض مالکیہ کایہ قول بھی ہے کہ قیام کی حالت میں اپنے سینے پر نظر رکھے۔ قاضی شریح کہتے ہیں کہ قیام میں سجدے کی جگہ نظر رکھے جیسا کہ جمہور علماء کا قول ہے اس لیے کہ اس میں پورا پورا خشوع وخضوع ہے۔ اس مضمون کی ایک حدیث بھی موجود ہے اور رکوع کی حالت میں اپنے قدموں کی جگہ نظر رکھے اور سجدے کے وقت ناک کی جگہ اور قعدہ کی حالت میں اپنی آغوش کی طرف۔ (۱۷)
”فمن شھد منکم الشھر“ (البقرة: ۱۸۵)
کی تفسیر میں موٴلف نے چار مسائل کا ذکر کر کے اس بارے میں علما ء کے مختلف مسالک اور ان کے براہین و دلائل بیان کیے ہیں۔ (۱۸)
سورہ نساء کی آیت ۴۳ کے تحت تیمم کے مسائل اور احکام ذکر کیے گئے ہیں۔ (۱۹)
”لایواخذکم اللّٰہ باللغوفی ایمانکم“الخ (سورة المائدہ:۸۹)
کے تحت قصداً قسم کے سلسلے میں کفارہ ادا کرنے کے مسائل بیان کئے گئے ہیں (۲۰) امام ابن کثیر فقہی مسائل میں عموماً شافعی مسلک کی تائید کرتے ہیں۔
روایات و قول میں تطبیق:
ابن کثیر مختلف و متضاد روایات میں جمع و تطبیق کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے مابین محاکمہ کرتے ہیں۔ مثلاً سورة آلِ عمران کی آیت ۱۶۹
”ولاتحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتاً بل احیاً ء عند ربھم یرزقون“
کی تفسیر میں لکھتے ہیں : صحیح مسلم میں ہے، مسروق کہتے ہیں ہم نے عبد اللہ ابن مسعود سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا: آپ نے فرمایا: شہیدوں کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور ان کیلئے عرش کی قند یلیں ہیں۔ وہ ساری جنت میں جہاں کہیں چاہیں، کھائیں پےئیں اور قندیلیوں میں آرام کریں۔ لیکن مسند احمد میں ہے کہ شہید لوگ جنت کے دروازے پر نہر کے کنارے سبز گنبد میں ہیں۔ صبح و شام انہیں جنت کی نعمتیں پہنچ جاتی ہیں۔ دونوں حدیثوں میں تطبیق یہ ہے کہ بعض شہداء وہ ہیں جن کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور بعض و ہ ہیں جن کا ٹھکانہ یہ گنبد ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جنت میں سے پھرتے پھراتے یہاں جمع ہوتے ہوں اور پھر انہیں یہیں کھانے کھلائے جاتے ہوں۔ ” واللہ اعلم‘ ‘ (۲۱)
آپ مختلف تفسیری اقوال میں بھی تطبیق دیتے ہیں مثلاً سورة قصص کی آیت (۸۵) ”لر آدک الیٰ معاد“ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس کے تین قول نقل کیے ہیں (۱) موت (۲) جنت (۳) مکہ۔ ان تینوں اقوال میں یوں تطبیق دی ہے کہ مکہ کا مطلب فتح مکہ ہے جوحضوراکرم کی موت کی قربت کی دلیل ہے اور روز قیامت مراد لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہر حال موت کے بعد ہی ہو گا اور جنت اس لیے کہ تبلیغ رسالت کے صلہ میں آپ کا ٹھکانہ وہی ہو گا۔ (۲۲)
قرآنی آیات کا ربط و تعلق:
ابن کثیر قرآن مجید کے ربط و نظم کے قائل تھے۔ وہ اپنی ”تفسیر" میں آیات کے باہمی تعلق اور مناسبت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قرآن پاک ایک مربوط منظم کتاب نظر آتی ہے، اس سلسلے میں متعدد مثالیں ”تفسیر ابن کثیر“ میں نظر آتی ہیں مثلاً آیت
”انما الصدٰقٰت للفقر آ ء والمساکین۔ ۔ ۔ الخ“ (سورہ توبہ: ۶۰)
کے سلسلے میں رقمطر از ہیں۔
”سورة توبہ کی آیت ۵۸
”ومنھم من یلمزک فی الصدقت۔ ۔ ۔ الخ“
میں ان جاھل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول پر تقسیم صدقات کے سلسلے میں اعتراض کرتے تھے۔ اب یہاں اس آیت میں فرمایا کہ تقسیم زکوةٰ پیغمبر کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتلائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے، ہم نے خود اس کی تقسیم کر دی ہے، کسی اور کے سپرد نہیں کی۔" (۲۳)
”اولئٓک یجزون الغرفة بما صبروا۔ ۔ ۔ الخ“ (سورہ الفرقان: ۷۵،۷۶)
کے متعلق فرماتے ہیں۔ ’چونکہ خدائے رحمن نے اس سے پہلی آیات میں اپنے مومن بندوں کے پاکیزہ اوصاف اور عمدہ طور طریقوں کا ذکر کیا تھا، اس لیے اس کی مناسبت سے اس آیت میں ان اجزا کا ذکر کیا ہے۔" (۲۴)
قرآن مجید میں بعض مقامات پر مومن اور باطل فرقوں کیلئے اسلوب تقابل اختیار کیا گیا ہے جو اس کے منظم و مربوط ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے علامہ ابن کثیر نے یہاں بھی آیتوں کی مناسبت اور ان کا باہمی ربط بیان کیا ہے، مثلاً
”وبشرالذین امنوا وعملو الصٰالحٰتِ۔ ۔ ۔ الخ“ (سورةالبقرة :۲۵)
کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔
”چونکہ اللہ تعالی نے پہلے اپنے دشمنوں یعنی بدبخت کفار کی سزا اور رسوائی کا تذکرہ کیا تھا، اس لیے اب اس کی مناسبت سے یہاں اس کے مقابلہ میں اپنے دوستوں یعنی خوش قسمت ایماندار، صالح و نیک لوگوں کے اجر کا ذکر کر رہا ہے اور صحیح قول کے مطابق قرآن مجید کے مثالی ہونے کا یہی مطلب ہے کہ ایمان کے ساتھ کفر اور سعادتمندوں کے ساتھ بدبختوں یا اس کے برعکس یعنی کفر کے ساتھ ایمان اور بدبختوں کے ساتھ سعادتمندوں کا تذکرہ کیا جائے۔ اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی چیز کے ساتھ اس کے مقابل کا ذکر کیا جائے تو یہ مثانی کہلائے گا اور اگر کسی چیز کے ساتھ اسکے امثال و نظائر کا تذکرہ کیا جائے تو یہ متشابہ ہو گا۔"(۲۵)
حروف مقطعات پر بحث:
حروف مقطعات کے بارے میں امام ابن کثیر کا نقطہ نظریہ ہے:
”جن جاہلوں کا یہ خیال ہے کہ قرآن کی بعض چیزوں کی حیثیت محض تعبدی ہے، وہ شدید غلطی پر ہیں۔ یہ تو بہر حال متعین ہے کہ ان حروف (مقطعات ) کے کوئی نہ کوئی معنی ضرور ہیں، خدا نے ان کو عبث نازل نہیں فرمایا، اگر ان کے متعلق نبی کریم سے کوئی بات ثابت ہو گی تو ہم اسے بیان کرینگے اور اگر حدیث سے کوئی بات معلوم نہ ہو گی تو ہم توقف کریں گے اور یہ کہیں گے کہ (امنابہ کل من عندہ ربنا )۔ حروف مقطعات کے متعلق علمائے امت کا کسی ایک قول اور مفہوم پر اجماع نہیں ہے بلکہ اختلافات ہیں، اس لیے اگر کسی دلیل سے کسی کے نزدیک مفہوم زیادہ واضح ہے تو اس کو وہ مفہوم اختیار کر لینا چاہیے، ورنہ حقیقت حال کے انکشاف تک توقف کرنا چاہیے۔"(۲۶)
ابن کثیر نے زیر بحث کتاب میں حروف مقطعات پر عمدہ بحث کی ہے اس سلسلے میں وہ مختلف مفسرین کے اقوال کی روشنی میں ان کے معانی ومفاہیم متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں (۲۷)
فضائل السورآیات:
”تفسیر ابن کثیر“ میں سورتوں اور آیتوں کے فضائل و خصوصیات، آنحضور کا ان پر تعامل اور امت کو ترغیب و تلقین کا تذکرہ پایاجاتا ہے۔ اس سلسلے میں ابن کثیر نے اہم کتب احادیث کے علاوہ امام نسائی کی معروف تصنیف ”عمل الیوم واللیلة“ اور امام بیہقی کی ”کتاب الخلافیات“سے بھی استفادہ کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں سورة البقرہ اور سورة آلِ عمران کے فضائل کا مفصل بیان ہے۔ اسی طرح آیت
”ولقد اتیناک سبعاً من المثانی“ (سورہ الحجر: ۸۷)
کے تحت سبع مثانی کی تفسیر میں سات مطول سورتوں بشمول سورة البقرہ وآلِ عمران کے فضائل و خصائص تحریر کیے گئے ہیں۔ (۲۸)
امام ابن کثیر سورہ حشر کی آخری تین آیتوں کے متعلق فرماتے ہیں:
”مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ جو شخص صبح کو تین مرتبہ
اعوزباللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم
پڑھ کر سورة حشر کی آخری تین آتیوں کو پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے جو شام تک اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا مرتبہ پاتا ہے اور جو شخص ان کی تلاوت شام کے وقت کرے، وہ بھی اسی حکم میں ہے“(۲۹)
امام صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”جادو کو دور کرنے اور اس کے اثر کو زائل کرنے کیلئے سب سے اعلیٰ چیز معوذ تان یعنی سورة الفلق اور سورة الناس ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ان جیسا کوئی تعویذ نہیں۔ اسی طرح آیت الکرسی بھی شیطان کو دفع کرنے میں اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔" (۳۰)
اشعار سے استشھاد:
ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ایک انداز یہ بھی اختیار کیا ہے کہ وہ کسی آیت کے معنی و مفہوم کو واضح کرنے کیلئے حسب موقع عربی اشعار پیش کرتے ہیں۔ یہ طرز غالباً انہوں نے طبری سے حاصل کیا ہے۔ آیت ”قل متاع الدنیا قلیل وًالاخرة خیر لمن اتقیٰ"۔ (النساء : ۷۷) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے موصوف نے ابومصہر کے یہ اشعار بیان کیے ہیں۔
ولاخیر فی الدنیا لمن لم یکن لہ من اللّٰہ فی دارالمقام نصیب۔
فان تعجب الدنیا رجالا فانھا متاع قلیل والزوال قریب (۳۱)
(اس شخص کیلئے دنیا میں کوئی بھلائی نہیں جس کو اللہ کی طرف سے آخرت میں کوئی حصہ ملنے والا نہیں۔ گو یہ دنیا بعض لوگوں کو پسندیدہ معلوم ہوتی ہے، لیکن دراصل یہ معمولی سافائدہ ہے۔ اور وہ بھی ختم ہونے والا ہے)۔
”وانی لاظنک یفرعون مثبوراً“ (سورہ بنی اسرائیل : ۱۰۲)
میں لفظ ”مثبور“ کے معنی ہلاک ہونا۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ معنی عبداللہ بن زبعریٰ کے اس شعر میں بھی ہیں:۔
”اذا جار الشیطٰین فی سنن الغی ومن مال میلہ مثبور۔" (۳۲)
جب شیطان سرکشی کے طریقوں پر چلتا ہے
اور پھر جو لوگ بھی سکے طریقے پر چلیں تو وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔
لغت عرب سے استدلال:
ابن کثیر تفسیر میں لغت سے بھی استدلال کرتے ہیں اور اقوال عرب کو نظائر و شواہد کے طور پر پیش کرتے ہوئے آیت کی تشریح و توضیح کرتے ہیں مثلاً ”فقلیلا مایوٴمنون“ (البقرة : ۸۸) کے متعلق لکھتے ہیں :
”اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ بالکل ایمان نہیں رکھتے ہیں، جیسے عرب کہتے ہیں۔ ”فلما رأیت مثل ھذاقط“ مطلب یہ ہے کہ میں نے اس جیسا بالکل نہیں دیکھا۔" (۳۳)
”ےئسلونک ماذا احل لھم قل احل لکم الطبیٰت وما علمتم من الجوارح مکلبین" (سورةالمائدة : ۴)
کی تفسیر میں لفظ ”جوارح“ کو زیر بحث لاتے ہیں اور لکھتے ہیں: ”شکاری حیوانات کو جوارح اس لیے کہا گیا ہے کہ جرح سے مراد کسب اور کمائی ہے، جیسے کہ عرب کہتے ہیں ”فلان جرح اہلہ خیراً“ یعنی فلاں شخص نے اپنے اہل و عیال کیلئے بھلائی حاصل کر لی ہے۔ نیز عرب کا ایک قول یہ بھی ہے ”فلاں لا جارح لہ" یعنی فلاں شخص کا کوئی کمانے والانہیں۔"(۳۴)
جمہور مفسرین اور ابن کثیر:
ابن کثیر اپنی ”تفسیر" میں متقد مین علمائے تفسیر کے مختلف اقوال کا قدر مشترک تلاش کر کے اس کو ہم معنی ثابت کرتے ہیں اور اکثر جمہور علماء اہل سنت والجماعت کے نقطہء نظر سے اتفاق کرتے ہیں مثلاً آیت
”ومن کان مریضا اوعلیٰ سفر فعدة من ایام اخر“ (سورةالبقرة ۱۸۵)
کے تحت ابن کثیر قضاء روزوں کے مسئلہ پر جمہور کا یہ مسلک اختیار کرتے ہیں کہ قصاء روزے پے در پے رکھنا واجب نہیں بلکہ یہ مرضی پر منحصر ہے کہ ایسے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے جائیں یا متواتر دنوں میں (۳۵)
ابن کثیر نقل و روایت میں مقلد جامدنہ تھے بلکہ ان کی تنقید و تردید بھی کرتے تھے، اس لیے وہ سلف کی تفسیروں کے پابند ہونے کے باوجود بعض اوقات ان کی آراء سے اختلاف بھی کرتے ہیں مثلاً آیت
”فلما اتھما صالحا جعلالہ شر کآ ء َ فیما اتھما،۔ ۔ ۔ الخ“
(الاعراف : ۱۹۰)
کی تفسیر میں ابن عباس کی روایت بیان کی ہے کہ حضرت حوا کی جو اولاد پیدا ہوتی تھی وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے مخصوص کر دیتی تھیں اور ان کا نام عبد اللہ، عبیداللہ وغیرہ رکھتی تھیں۔ یہ بچے مر جاتے تھے، چنانچہ حضرت آدم وحوا کے پاس ابلیس آیا اور کہنے لگا کہ اگر تم اپنی اولاد کا نام کوئی اور رکھو گے تو وہ زندہ رہے گا اب حوا کا جو بچہ پیدا ہوا تو ماں باپ نے اس کا نام عبدالحارث رکھا۔ اسی بناء پر اللہ نے فرمایا:
”جعلالہ شر کآ ءَ فیما اتھما“
اللہ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اللہ کے شریک قرار دینے لگے۔
پھر ابن کثیر لکھتے ہیں: ”اس روایت کو ابن عباس سے ان کے شاگردوں مجاہد، سعید بن جبیر، عکرمہ اور طقبہ ثانیہ کے فتادہ اور سدی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ اسی طرح سلف سے خلف تک بہت سے مفسرین نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے،لیکن ظاہر یہ ہے یہ واقعہ اہل کتاب سے لیا گیا ہے، اس کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن عباس اس واقعہ کو ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں، جیسے کہ ابن ابی حاتم میں ہے۔ میرے نزدیک یہ اثر ناقابل قبول ہے۔" (۳۶)
سورة حج کی آیت ۵۲ :
”وما ٓ ارسلنا من قبلک من رسول ولانبی الااذاتمنی القی الشیطٰن فی امنیة“
کے متعلق ابن کثیر کو جمہور کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں ہے، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:
”یہاں پر اکثر مفسرین نے غرانیق کا قصہ نقل کیا ہے اور یہ بھی کہ اس واقعہ کی وجہ سے اکثر مہاجرین حبشہ یہ سمجھ کر کہ اب مشرکین مکہ مسلمان ہو گئے ہیں، واپس مکہ آگئے لیکن یہ سب مرسل روایتیں ہیں جو میرے نزدیک مستند نہیں ہیں۔ ان روایات کو محمد بن اسحاق نے سیرت میں نقل کیا ہے، لیکن یہ سب مرسل اور منقطع ہیں۔ امام بغوی نے بھی اپنی تفسیر میں ابن عباس اور محمد بن کعب قرظی سے اس طرح کے اقوال نقل کرنے کے بعد خود ہی ایک سوال وارد کیا ہے کہ جب رسول کریم کی عصمت کا محافظ خود خدا تعالیٰ ہے تو ایسی بات کیسے واقع ہو گئی ؟ پھر اس کے کئی جوابات دےئے ہیں، جن میں سب سے صحیح اور قرین قیاس جواب یہ ہے کہ شیطان نے یہ الفاظ مشرکین کے کانوں میں ڈالے، جس سے ان کو یہ وہم ہو گیا کہ یہ الفاظ آنحضور کے منہ سے نکلے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ بلکہ یہ صرف شیطانی حرکت تھی، رسول کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔" (۳۷)
علم القراة اور لغوی تحقیق:
ابن کثیر قرآنی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے حسب موقع اختلاف قرأت و اعراب، صرفی و نحوی ترکیب اور الفاظ کی لغوی تحقیق کے علاوہ ان کے مصادر، تثنیہ، جمع اور اصطلاحی مفہوم بیان کرتے ہیں مثلاً آیت
”ولقد مکنکم فی الارض وجعلنا لکم فیھا معایش“ (الاعراف: ۱۰)
میں لفظ ”معائش“ کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں لفظ ”معایش“ کو سب لوگ (ی) کے ساتھ پڑھتے ہیں یعنی ہمزہ کے ساتھ ”مَعَائِش“ نہیں پڑھتے، لیکن عبدالرحمن بن ہرمز اس کو ہمزہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اور صحیح تو یہی ہے۔ جو اکثر کا خیال ہے یعنی بلاہمزہ، اس لیے کہ ”معایش“ جمع معیشتہ کی ہے۔ یہ مصدر ہے، اس کے افعال ”عاش، یعیش مَعِیشَة ہیں اس مصدر کی اصلیت ہے ” معیشة“ کسرہ (ی) پر ثقیل تھا، اس لیے عین کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے اور لفظ ”معیشة" معیشہ بن گیا ہے پھر اس واحد کی جب جمع بن گئی تو(ی) کی طرف حرکت پھر لوٹ آئی کیونکہ اب ثقالت باقی نہیں رہی، چنانچہ کہا گیا کہ مَعَایِش کا وزن مفاعل ہے اس لئے کہ اس لفظ میں (ی) اصل ہے بخلاف مدائن، صحائف اور بصائر کے کہ یہ مدنة صحیفة اور بصیرة کی جمع ہیں، چونکہ (ی) اس میں زائد ہے، لہذا جمع بروزن فعائل ہو گی اور ہمزہ بھی آئے گا۔ (۳۸)
”واذتاذن ربک لیبعثن علیھم۔ ۔ ۔ الخ“ (سورہ الاعراف: ۱۶۷)
میں لفظ ”تَاَذَّنَ“ پر اس طرح بحث کرتے ہیں۔ ”تاذن بروزن تفعل“ اذان سے مشتق ہے یعنی حکم دیا یا معلوم کرایا اور چونکہ اس آیت میں قوت کلام کی شان ہے، اس لیے لیبعثن کا (ل) معنائے قسم کا فائدہ دے رہا ہے، اس لیے(ل) ے بعد ہی یبعثن لا یا گیاھم کی ضمیر یہود کی طرف ہے۔" (۳۹)
لغوی بحث کی عمدہ مثال ہمیں زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں تعوذ، تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تفسیر میں نظر آتی ہے۔ ابن کثیر لفظ ”صلوٰة" کی تحقیق فرماتے ہیں: ’عربی لغت میں (صلوٰة ) کے معنی دعا کے ہیں۔ اعشیٰ کا شعر ہے۔
لھا حارس یبرح الدحر بیتھا وان ذا بحت صلی علیھا وزمزما
یہ شعر بھی اعشیٰ سے منقول ہے۔
واقابلھا الریح فی دنھا وصلی علی دنھا وارتسم
ان اشعار میں (صلوٰة) کا لفظ دعا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ شریعت میں اس لفظ کا استعمال نماز پر ہے۔ یہ رکوع وسجود اور دوسرے خاص افعال کا نام ہے جو جملہ شرائط صفات اور اقسام کے ساتھ سرانجام دےئے جاتے ہیں۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ نماز کو صلوٰة اس لیے کہا جاتا ہے کہ نمازی اللہ تعالیٰ سے اپنے عمل کا ثواب طلب کرتا ہے اور اپنی حاجتیں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو دو رگیں پیٹھ سے ریڑھ کی ہڈی کے دونوں طرف آتی ہیں، انہیں عربی میں ”صَلَوین“ کہتے ہیں۔ چونکہ نماز میں یہ ملتی ہیں۔ اس لیے نماز کو صلوٰة کہا گیا ہے، لیکن یہ قول ٹھیک نہیں۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ یہ ماخوذ ہے ”صَلّٰی“ سے، جس کے معنی ہیں چپک جانا اور لازم ہو جانا، جیسا کہ قرآن میں ہے ” لایصلاھا“ یعنی جہنم میں ہمیشہ نہ رہے گا مگر بدبخت۔ بعض علماء کا قول ہے کہ جب لکڑی کو درست کرنے کیلئے اسے آگ پر رکھتے ہیں تو عرب تَصِلیَہ کہتے ہیں۔ چونکہ نمازی بھی اپنے نفس کی کجی اور ٹیڑھ پن کو نماز سے درست کرتا ہے، اس لیے اسے صلوٰة کہتے ہیں جیسے قرآن میں ہے :
ان الصلوة تنھی عن الفحشاء والمنکر ولذکر اللہ اکبر
نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر ہی بڑا ہے۔
لیکن اس کا دعا کے معنی میں ہونا ہی زیادہ صحیح ہے اور زیادہ مشہور ہے۔ ”واللہ اعلم“(۴۰)
ابن کثیر مترادفات پر بھی خوبصورت انداز میں بحث کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں قلیل اورتھوڑی مقدار کیلئے بطور تمیثل نقیر، فتیل اور قطمیر کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ موصوف سورة نساء کی آیت۱۲۴:
”ومن یعمل من الصلحٰت من ذکر اوانثیٰ وھو مومن فاوٴلیٴٰک یدخلون الجنة ولایظلمون نقیراً ہ“
کے تحت مذکورالفاظ کی تشریح کرتے ہیں: ”کھجور کی گٹھلی کی پشت پر جوذرا سی جھلی ہوتی ہے، اسے نقیر کہتے ہیں۔ گٹھلی کے درمیان جو ہلکا سا چھلکا ہوتا ہے۔ اس کو فتیل کہتے ہیں۔ یہ دونوں کھجور کے بیج میں ہوتے ہیں اور بیج کے اوپر کے لفافے کو قطمیر کہتے ہیں اور یہ تینوں لفظ اس موقع پر قرآن میں آئے ہیں۔" (۴۱)
ناسخ و منسوخ:
ناسخ و منسوخ کی شناخت فن تفسیر میں نہایت اہم ہے۔ اس علم سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی کون سی آیت محکم ہے اور کون سی متشابہ۔ مفسر قرآن کیلئے اس علم میں مہارت نہایت ضروری ہے تاکہ وہ صحیح معنوں میں احکامات و مسائل کی توضیح و تشریح کر سکے۔ ابن کثیر اس علم میں بھی دسترس رکھتے تھے۔ وہ ناسخ و منسوخ آیات کی وضاحت، ان کے بارے میں مفسرین اور فقہاء کی اختلافی آراء اور جمہور کی تائید میں اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہیں۔ مثلاً
”والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا وصیة لازواجھم متاعا الی الحوال۔ الخ“ (سورةالبقرة: ۲۴۰)
کے متعلق اکثر صحابہ و تابعین سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت چار مہینے دس دن والی عدت کی آیت یعنی
”والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا یتربصن بانفسھن اربعة اشھر وعشراً (البقرة : ۲۳۴)
سے منسوخ ہو چکی ہے۔ (۴۲)
”انفرو خفافا و ثقالا وجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ ِ۔ ۔ ۔ الخ“ (التوبہ: ۴۱)
کے تحت لکھتے ہیں کہ اس آیت میں غزوہ تبوک کیلئے تمام مسلمانوں کو ہر حال میں نبی کے ہمراہ جانے کا حکم دیا گیا ہے، خواہ کوئی آسانی محسوس کرے یا تنگی، بڑھاپے کی حالت میں ہو یا بیماری کا عذر۔ لوگوں پر یہ حکم گراں گزرا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے آیت
”لیس علی الضعفآ ء ولاعلی المرضیٰ ولا علی الذین لایجدون ماینفقون حرج اذا نصحو اللہ ورسولہ" (التوبہ: ۹۱)
سے منسوخ کر دیا۔ یعنی ضعیفوں، بیماروں اور تنگ دست فقیروں پر جبکہ ان کے پاس خرچ تک نہ ہو، اگر وہ دین خدا اور شریعت مصطفی کے حامی، طرف دار اور خیر خواہ ہوں تو میدان جنگ میں نہ جانے پر کوئی حرج نہیں۔ (۴۳)
تلخیص کلام:
ابن کثیر کے انداز تحریر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ و ہ کسی آیت کی تفسیر میں جامع بحث اور تبصرہ کے بعد اس کا خلاصہ تحریر کرتے ہیں اور اخذ کردہ نتائج کو سامنے لاتے ہیں، مثلاً آیت
”فمن کان منکم مریضا اوعلیٰ سفر۔ ۔ ۔ ۔ الخ“ (سورةالبقرة: ۱۸۴)
کے متعلق احادیث و اقوال کی روشنی میں طویل گفتگو کے بعد اس کا لب لباب تحریر کیا ہے۔ (۴۴)
آیت ”قل انما حرم ربی الفواحش ماظھر منھا وما بطن والاثم والبغی بغیر الحق“ (سورةالاعراف: ۳۳)
کے تحت تشریح و توضیح کے بعد لکھتے ہیں :
”حاصل بحث تفسیر یہ ہے کہ ”اثم“ وہ خطایات ہیں جو فاعل کی اپنی ذات سے متعلق ہیں اور ”بغی“ وہ تعدی ہے جو لوگوں تک متجاوز ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونون چیزوں کو حرام فرمایا ہے۔" (۴۵)
خصوصیات:
تفسیر ابن کثیر کی چند نمایاں خصوصیات جو دوسری تفاسیرسے اسے ممتاز کرتی ہیں۔
اسرائیلیات:
منقولی تفاسیر کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ ان میں اسرائیلی خرافات کثرت سے نقل کی گئی ہیں۔ ایسی روایات کے بارے میں ابن کثیر اپنا نقطہ نظر ”تفسیر القرآن العظیم“ میں یوں بیان کرتے ہیں:
”ہمارا مسلک یہ ہے کہ اس تفسیر میں اسرائیلی روایات سے احتراز کیا جائے۔ ان میں پڑنا وقت کا ضیاع ہے۔ اس قسم کی اکثر روایتوں میں جھوٹ بھی ہوتا ہے، کیونکہ اس امت کے ائمہ فن اور نقاد ان حدیث کی طرح اہل کتاب نے صحیح و سقیم میں تفریق نہیں کی۔" (۴۶)
اگرچہ تفسیر ابن کثیر بھی اسرائیلیات سے خالی نہیں ہے تاہم اس کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں موٴلف اسرائیلی واقعات محض استشھاد کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ جن پر اجمالاً اور بعض اوقات تفصیلاً نقد و جرح کرتے ہیں، مثلاً سورة البقرة کی آیت ۶۷
”ان اللہ یا مرکم ان تذبحوا بقرة"
کی تفسیر کرتے ہوئے بنی اسرائیل کی گائے کا طویل قصہ ذکر کیا ہے۔ پھر اس میں سلف سے منقول روایات تحریر کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔
”ابو عبیدہ، ابو العالیہ اور سدی سے جو روایات منقول ہیں،ان میں اختلاف ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ روایات بنی اسرائیل کی کتابوں سے ماخوذ ہیں۔ بلاشبہ ان کو نقل کرنا درست ہے مگر ان کی تصدیق و تکذیب نہیں کی جاسکتی، لہذا ان پر اعتماد کرنا درست نہیں ماسوا اس روایت کے جو اسلامی حقائق کے مطابق ہو“(۴۷)
اسی طرح سورة انبیاء کی آیت۵۱
”ولقد اٰتینآ ابراہیم رشدہ من قبل وانا بہ علمین“
کے تحت تحریر کرتے ہیں۔
”یہ جو قصے مشہور ہیں کہ حضرت ابراہیم کے دودھ پینے کے زمانے میں ہی ان کی والدہ نے انہیں ایک غار میں رکھا تھا جہاں سے وہ مدتوں بعد باہر نکلے اور مخلوقات خدا پر خصوصاً چاند تاروں پر نظر ڈال کرخدا کو پہچانا۔ یہ سب بنی اسرائیل کے افسانے ہیں۔ ان میں سے جو واقعہ کتاب و سنت کے مطابق ہو وہ سچا اور قابل قبول ہے اس لیے کہ وہ صحت کے مطابق ہے او رجو خلاف ہو وہ مردود اورنا قابل قبول ہے اور جسکی نسبت ہماری شریعت خاموش ہو، مخالفت و موافقت کچھ نہ ہو، گو اس کا روایت کرنا بقول اکثر مفسرین جائز ہے، لیکن نہ تو ہم اسے سچا کہہ سکتے ہیں نہ غلط۔ ان (اسرائیلیات) میں سے اکثر واقعات ایسے ہیں جو ہمارے لیے کچھ سند نہیں اور نہ ہی ان میں ہمارا کوئی دینی نفع ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہماری جامع، نافع، کامل و شامل شریعت اس کے بیان میں کو تاہی نہ کرتی۔" (۴۸)
زیر بحث تفسیر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن کثیر اسرائیلیات کے بارے میں اپنے موٴقف اور نظریہ پر مکمل طور پر کاربند نہ رہ سکے اور تساہل و تسامح اختیار کرتے ہوئے بعض ایسی روایات بھی بیان کی ہیں جن کو فی الواقع خود ان کے اصول کے مطابق اس تفسیر میں شامل نہیں کرنا چاہیے تھا، مثلاً ”واتخذ اللہ ابراہیم خلیلاً“ (النساء : ۱۲۵) کے متعلق ابن جریر کے حوالے سے ایک اسرائیلی روایت ذکر کی ہے جس کی حقیقت داستان سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
”بعض کہتے ہیں کہ ابراہیم کو خلیل اللہ کا لقب اس لیے ملاکہ ایک دفعہ قحط سالی کے موقع پر آپ اپنے دوست کے پاس مصر یا موصل گئے تاکہ وہاں سے کچھ اناج وغیرہ لے آئیں، لیکن یہاں کچھ نہ ملا اور خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ جب آپ واپس اپنی بستی کے قریب پہنچے تو خیال آیا کہ ریت کے تودے میں سے اپنی بوریاں بھر کر لے چلوں تاکہ گھروالوں کو قدرے تسکین ہو جائے، چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا اور ریت سے بھری بوریاں جانوروں پر لاد کر لے چلے۔ قدرت خداوندی سے وہ ریت سچ مچ آٹا بن گیا۔ آپ تو گھر پہنچ کر لیٹ گئے، تھکے ہارے تھے، آنکھ لگ گئی۔ گھر والوں نے بوریاں کھولیں اور انہیں بہترین آٹے سے بھر ا ہوا پایا، آٹا گوندھا اور روٹیاں پکائیں جب یہ جاگے اور گھر میں سب کو خوش پایا اور روٹیاں بھی تیار دیکھیں تو تعجب سے پوچھنے لگے آٹا کہاں سے آیا ہے جس سے روٹیاں پکائیں؟ انہوں نے کہا کہ آپ ہی تو اپنے دوست کے ہاں سے لائے ہیں۔ اب آپ سمجھ گئے اور فرمایا، ہاں! یہ میں اپنے دوست اللہ عزوجل سے لایا ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو اپنا دوست بنا لیا اور آپ کا نام خلیل اللہ رکھ دیا۔" (۴۹)
اسی طرح
”وایوب اذنادیٰ ربہ انی مسنی الضروانت ارحم الراحمین“ (سورةالانبیاء: ۸۳)
کے تحت بعض ایسی روایات نقل کی ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں۔ (۵۰)
”واتینا ہ أھلہ ومثلھم معھم رحمة" (سورةالانبیا: ۸۴)
کی تفسیر میں ایک روایت تحریر ہے کہ حضرت ایوب کی بیوی کا نام رحمت ہے۔ (۵۱)
ابن کثیر اس قسم کی روایات میں یہ انداز اختیار کرتے ہیں کہ ان کی تصدیق یا تکذیب کیے بغیر واللہ اعلم کہہ کر ان پر نقدو تبصرے سے گریز کرتے ہیں۔
غیر ضروری مسائل کی تحقیق و تجسّس سے احتراز:
کتب تفسیر کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ ان میں غیر ضروری اور بے سود باتوں کی تحقیق بڑے اہتمام سے کی جاتی ہے جو قرآن کے مقصد تذکیر و استدلال کے بالکل خلاف ہے۔ ابن کثیر نے ایسے مسائل کی تحقیق و جستجو کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اپنی تفسیر میں غیر ضروری اور غیر اہم مباحث سے حتیٰ الامکان پر ہیز کیا ہے، مثلاً ”فخذاربعة من الطیر“ (سورةالبقرة : ۲۶۰) کے متعلق لکھتے ہیں:
”ان چاروں پرندوں کی تعیین میں مفسرین کا اختلاف ہے، حالانکہ ان کی تعیین بے سود اور غیر ضروری ہے۔ اگر یہ کوئی اہم بات ہوتی تو قرآن ضرور اسکی تصریح کرتا۔" (۵۲)
وسیع معلومات:
ابن کثیر نے تفسیر قرآن مرتب کرنے کیلئے ہر اس حدیث اور اثر کو اکٹھا کیاجو اس میدان میں ممکن تھی۔ قاری اس کتاب کے مطالعے سے نہ صرف احادیث و روایات کے وافر ذخیر ے سے مستفیض ہوتا ہے بلکہ اسے تفسیر، فقہ و کلام اور تاریخ و سیرت کی وسیع اور مستند معلومات بھی حاصل ہوتی ہیں۔
عدم تکرار:
ابن کثیر کی تفسیر میں تکرار نہیں پایا جاتا ماسوا ان بعض روایات کے جو انہوں نے مقدمہ کی بحث میں نقل کی ہیں۔ وہ کسی آیت کی تفسیر و تشریح کو دہرانے کی بجائے اس کا اجمالاً ذکر کرتے ہیں اور اس کی قبل ازیں تفسیر کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں، مثلاً موصوف حروف مقطعات پر شرح و بسط کے ساتھ سورة بقرہ کی تفسیر میں بحث کر چکے ہیں، اس لیے بعد میں جن سورتوں میں یہ حروف آئے ہیں، ان کو زیر وضاحت نہیں لاتے مثلاً ”مرج البحرین یلتقیٰن“ (سورةالرحمن: ۱۹) کے متعلق لکھتے ہیں:
”ہم اس کی پوری تشریح سورة فرقان کی آیت ”وھو الذی مرج البحرین۔ ۔ ۔ الخ“ کی تفسیر میں بیان کر چکے ہیں۔" (۵۳)
ماثوردعاؤں کا بیان:
”تفسیر ابن کثیر“ میں موقع و محل کے مطابق آنحضور اور صحابہ کرام کے معمول کی بعض دعاؤں کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ مثلاً رسول کریم تہجد کے وقت جو دعائیں پڑھتے تھے، ان کو نقل کیا گیا ہے۔ (۵۴)۔
سنن ابن ماجہ کے حوالے سے روزہ افطار کے وقت صحابہ کرام کی یہ دعا ذکر کی گئی ہے:
”اللھم انی اسئالک برحمتک التی وسعت کل شئی ان تغفرلی“ (۵۵)
حضرت ابوبکر کے سوال پر نبی کریم نے شرک سے بچنے کی یہ دعا سکھائی
”اللھم انی اعوذبک انی اشرک بک وانا اعلم واستغفرک ممالا اعلم“ (۵۶)
ْقصص و احکام کے اسرار:
”تفسیر ابن کثیر" کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں واقعات اور احکام کے اسرار و رموز بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسلوب مصنف نے امام فخر الدین رازی کی پیروی میں اختیار کیا ہے۔ چنانچہ ابن کثیر نے مختلف واقعات اور قصص کو بحث و تحقیق کا موضوع بنایا ہے اور حقائق تک پہنچنے کی سعی کی ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کے احکام کو بھی انہوں نے دقت نظر سے لکھا ہے، مثلاً سورة فاتحہ کے تمام مطالب کی حکیمانہ تشریح کی ہے اور پھر لکھتے ہیں:
”یہ مبارک سورة نہایت کارآمد مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان سات آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد، اس کی بزرگی، اس کی ثناء و صفت اور اس کے پاکیزہ ناموں کا اور اس کی بلندو بالا صفتوں کا بیان ہے۔ اس سورة میں قیامت کے دن کا ذکر ہے اور بندوں کو اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ وہ صرف اسی سے سوال کریں، اس کی طرف تضرع وزاری کریں، اپنی مسکینی و بے کسی کا اقرار کریں، اس کی عبادت خلوص کے ساتھ کریں اس کی توحید والوہیت کا اقرار کریں اور اسے شریک، نظیر اور مثل سے پاک اور برتر جانیں، صراط مستقیم کی اور اس پر ثابت قدمی کی اس سے مدد طلب کریں۔ یہی ہدایت انہیں قیامت کے دن پل صراط سے بھی پار پہنچا دے گی اور نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے قرب میں جنت الفردوس میں جگہ دلوائے گی۔ یہ سورة نیک اعمال کی ترغیب پر بھی مشتمل ہے تاکہ قیامت کے دن نیک لوگوں کا ساتھ ملے اور باطل راہوں پر چلنے سے خوف دلایا گیا ہے تاکہ قیامت کے دن ان کی جماعتوں سے دوری ہو۔" (۵۷)
”ویقمیون الصلوٰة وممارز قنٰھم ینفقون" (سورةالبقرة: ۳)
کے تحت لکھتے ہیں ”قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز کا اور مال خرچ کرنے کا ذکر ملا جلاملتا ہے، اس لیے نماز خدا کا حق ہے اور اس کی عبادت ہے جو اس کی توحید، اس کی ثناء اس کی بزرگی، اس کی طرف جھکنے، اس پر توکل کرنے اس سے دعا کرنے کا نام ہے اور خرچ کرنا مخلوق کی طرف احسان ہے جس سے انہیں نفع پہنچے۔ اس کے زیادہ حقدار اہل و عیال اور غلام ہیں، پھر دور والے اجنبی۔ پس تمام واجب خرچ اخراجات اور فرض زکوٰة اس میں شامل ہے۔"(۵۸)
سورة ھود کی آیت ۹۴
”واخذت الذین ظلموا اٰلصیحة“
کے سلسلے میں کہتے ہیں ” یہاں صیحہ اعراف میں رجفہ اور سورة شعراء میں ”عذاب یوم الظلة“ کا ذکر ہے، حالانکہ یہ ایک ہی قوم کے عذاب کا تذکرہ ہے، لیکن ہر مقام پر اس لفظ کو لایا گیا ہے جس کا موقع کلام متقاضی تھا۔ سورة اعراف میں حضرت شعیب کو قوم نے بستی سے نکالنے کی دھمکی دی تھی، اس لیے رجفہ کہنا مناسب تھا، یہاں چونکہ پیغمبر سے ان کی بدتمیزی اور گستاخی کا ذکر تھا، اس لیے صیحہ کا لفظ لا یا گیا ہے اور سورةالشعراء میں انہوں نے بادل کا ٹکڑا آسمان سے اتارنے کا مطالبہ کیا تھا، اس لیے وہاں
”فاخذھم عذاب یوم الظلة"
کہا گیا اور یہ سب اسراردقیقہ ہیں۔" (۵۹) حیرانگی کی بات ہے کہ یہی اسلوب بعد میں علامہ محمود آلوسی نے اپنایا ہے۔
مصادر مراجع کی نشاندہی:
امام ابن کثیر آیات کی تفسیر کرتے ہوئے بوقت ضرورت اضافی معلومات اور اختلافی نکات کو نمایاں کرنے کیلئے اکثر موٴلفین کے نام اور بعض اوقات ان کی کتابوں کے حوالے دیتے جاتے ہیں، جن کو تصنیف ممدوح میں مرجع بنایا گیا ہے، اس طریقہ کار کے ضمنی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ محققین کیلئے ان مصادر سے براہ راست مستفیض ہونے کی سہولت ہو گئی، دوسرا یہ کہ سابقہ موٴلفین کی بیش قیمت آراء اور ان کی بہت سی ایسی کتابیں جواب نایاب ہیں، ان کے نام اور اقتباسات کے نمونے بھی محفوظ ہو گئے۔
تفسیر ابن کثیر کی قدرومنزلت:
موٴرخین اور اصحابِ نظر اس تفسیر کی تعریف اور توصیف میں رطب اللسان ہیں۔
امام سیوطی کی رائے ہے کہ ”اس طرز پر اب تک اس سے اچھی کوئی تفسیر نہیں لکھی گئی۔" (۶۰)
صاحب ”البدرالطالع“ فرماتے ہیں:
”ابن کثیر نے اس میں بہت سا مواد جمع کر دیا ہے۔ انہوں نے مختلف مذاہب و مسالک کا نقطہ نظر اور اخبارو آثار کا ذخیرہ نقل کر کے ان پر عمدہ بحث کی ہے۔ یہ سب سے بہترین تفسیرنہ سہی لیکن عمدہ تفاسیر میں شمار ہوتی ہے۔" (۶۱)
ابوالمحاسن الحسینی کا بیان ہے:
”روایات کے نقطہ نظر سے یہ سب سے مفید کتاب ہے کیونکہ (ابن کثیر) اس میں اکثر روایات کی اسناد پر جرح و تعدیل سے کلام کرتے ہیں اور عام روایت نقل کرنے والے مفسرین کی طرح وہ مرسل روایتیں نہیں ذکر کرتے۔" (۶۲)
علامہ احمد محمد شاکر لکھتے ہیں:
”امام المفسیرین ابو جعفر الطبری کی تفسیر کے بعد ہم نے عمدگی اور گہرائی میں (تفسیر ابن کثیر کو) سب سے بہتر پایا ہے اور ہم نہ تو ان دونوں کے درمیان اور نہ ہی ان کے بعد کی کسی تفسیر سے موازنہ کر سکتے ہیں جو ہمارے سامنے ہیں۔ ہم نے ان دونوں جیسی کوئی تفسیر نہیں دیکھی اور نہ کوئی تفسیر ان کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ علماء کے نزدیک یہ تفسیر، حدیث کے طالب علموں کیلئے اسانید و متون کی معرفت اور نقد و جرح میں بہت معاون ہے۔ اس لحاظ سے ایک عظیم علمی کتاب ہے اور اس کے بہت فوائد ہیں۔ (۶۳)
انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کا ”تفسیر ابن کثیر“ کے بارے میں یہ بیان ہے:
”ابن کثیر کی تفسیر بنیادی لحاظ سے فقہ اللغتہ کی کتاب ہے اور یہ اپنے اسلوب کے لحاظ سے اولین کتب میں شمار ہوتی ہے۔ بعد میں سیوطی نے جو کام کیا، اس پر اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔" (۶۴)
خلاصہ کلام یہ کہ ابن کثیر ان تمام علوم وشرائط پر حاوی نظرآتے ہیں جن کا جاننا ایک مفسر کیلئے ضروری ہے۔ انہوں نے تحقیق اور دقت نظری سے ”تفسیر قرآن“ کو مرتب کیا ہے جو قیمتی معلومات کا گنجینہ اور نہایت گراں بہا تفسیری ورثہ ہے۔ اگرچہ ابن کثیر کے توسع کی بناء پر اس کتاب میں بعض مقامات پر اعلیٰ اور بلند محدثانہ معیار خاطر خواہ قائم نہیں رہ سکا ہے، تاہم اہل نظر کو اعتراف ہے کہ محدثانہ نقطہ نظر سے یہ سب سے زیادہ قابل اعتماد تفسیر ہے۔ کتب تفسیر بالماثور میں اس کو امتیازی مقام حاصل ہے اور متاخرین نے ایک بنیادی مصدر کی حیثیت سے اس سے خوب استفادہ کیا ہے۔ جو شخص قرآن حکیم کے مطالب و معانی اور اسرار ورموز سے آگاہ ہونا چاہتا ہے وہ تفسیر ابن کثیر سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
مصادر و حواشی:
۱۔ الداؤی شمس الدین محمد
ڈاکٹر محمد اکبر ملک،
لیکچررشعبہ اسلامیات، گورنمنٹ ایس ای کالج بہاول پور
عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر ۷۰۱ہجری (۱) میں شام کے شہر بصریٰ کے مضافات میں ”مجدل“ نامی بستی میں پیدا ہوئے۔ (۲) اور دمشق میں تعلیم و تربیت پائی۔ آپ نے اپنے عہد کے ممتاز علماء سے استفادہ کیا اور تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، تاریخ، علم الرجال اور نحو عربیت میں مہارت حاصل کی۔ (۳) آپ نے ۷۷۴ہجری میں دمشق میں وفات پائی اور مقبرہ صوفیہ میں مدفون ہوئے۔ (۴)
امام ابن کثیر بحیثیت مفسر، محدث، موٴرخ اور نقاد ایک مسلمہ حیثیت کے حامل ہیں۔ آپ نے علوم شرعیہ میں متعدد بلند پایہ کتب تحریر کیں۔ ”تفسیر القرآن العظیم“ اور ضخیم تاریخ ”البدایہ والنہایہ“ آپ کی معروف تصانیف ہیں جن کی بدولت آپ کو شہر ت دوام حاصل ہوئی۔ زیر نظر مضمون اول الذکر کتاب کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔
تعارف تفسیر:
علامہ ابن کثیر نے قرآن کی جو تفسیر لکھی وہ عموماً تفسیرابن کثیر کے نام سے معروف ہے اور قرآن کریم کی تفاسیر ماثورہ میں بہت شہرت رکھتی ہے۔ اس میں موٴلف نے مفسرین سلف کے تفسیری اقوال کو یکجا کرنے کا اہتمام کیا ہے اور آیات کی تفسیر احادیث مرفوعہ اور اقوال و آثار کی روشنی میں کی ہے۔ تفسیر ابن جریر کے بعد اس تفسیر کو سب سے زیادہ معتبر خیال کیا جاتا ہے۔ اس کا قلمی نسخہ کتب خانہ خدیو یہ مصر میں موجود ہے۔ یہ تفسیر دس جلدوں میں تھی۔ ۱۳۰۰ء میں پہلی مرتبہ نواب صدیق حسن خان کی تفسیر ”فتح البیان“ کے حاشیہ پر بولاق، مصر سے شائع ہوئی۔ ۱۳۴۳ء میں تفسیر بغوی کے ہمراہ نو جلدوں میں مطبع المنار، مصر سے شائع ہوئی۔ پھر ۱۳۸۴ء میں اس کو تفسیر بغوی سے الگ کر کے بڑے سائز کی چار جلدوں میں مطبع المنار سے شائع کیا گیا۔ بعدازاں یہ کتاب متعدد بار شائع ہوئی ہے۔ احمد محمد شاکر نے اس کو بحذف اسانید شائع کیا ہے۔ محققین نے اس پر تعلیقات اور حاشیے تحریر کیے ہیں۔ سید رشید رضا کا تحقیقی حاشیہ مشہور ہے۔ علامہ احمد محمد شاکر (م۱۹۵۸) نے ”عمدة التفسیر عن الحافظ ابن کثیر“ کے نام سے اس کی تلخیص کی ہے۔ اس میں آپ نے عمدہ علمی فوائد جمع کیے ہیں۔ لیکن یہ نامکمل ہے۔ اسکی پانچ جلدیں طبع ہو چکی ہیں اور اختتام سورة انفال کی آٹھویں آیت پر ہوتا ہے۔
محمد علی صابونی نے ”تفسیر ابن کثیر“ کو تین جلدوں میں مختصر کیا اور ”مختصرتفسیر ابن کثیر“ کے نام سے اسے ۱۳۹۳ء میں مطبع دارالقرآن الکریم، بیروت سے شائع کیا بعد ازاں محمد نسیب رفاعی نے اس کو چار جلدوں میں مختصر کیا اور اسے ”تیسرالعلی القدیر لاختصار تفسیر ابن کثیر“ کے نام سے موسوم کیا۔ یہ ۱۳۹۲ء میں پہلی مرتبہ بیروت سے شائع ہوئی۔
مآخذ :
علامہ ابن کثیر نے اپنی ”تفسیر“ کی ترتیب و تشکیل میں سینکڑوں کتب سے استفادہ کیا ہے اور بے شمار علماء کے اقوال و آراء کو اپنی تصنیف کی زینت بنایا ہے۔ چند اہم مآخذ کے نام یہ ہیں۔
تفاسیر قرآن :
طبری، قرطبی، رازی، ابن عطیہ، ابو مسلم الاصفہانی، واحدی، زمخشری، وکیع بن جراح، سدی، ابن ابی حاتم، سنید بن داؤد، عبد بن حمید، ابن مردویہ وغیرہ۔
علوم قرآن :
فضائل القرآن ابوعبیدہ القاسم، مقدمہ فی اصول تفسیر ابن تیمیہ وغیرہ۔
کتب حدیث:
صحاح ستہ، صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمہ، مؤطا امام مالک، مستدرک حاکم، سنن دارقطنی، مسند امام شافعی، مسند دارمی، مسند ابویعلی الموصلی، مسند عبد بن حمید، مسند ابو بکر البزار، معجم کبیر طبرانی وغیرہ۔
کتب تراجم اور جرح و تعدیل:
التاریخ الکبیر امام بخاری، مشکل الحدیث ابو جعفر الطحاوی، الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ابن عبدالبر، الموضوعات ابن الجوزی وغیرہ۔
کتب سیرت و تاریخ:
سیرت ابن اسحاق، سیرت ابن ہشام، مغازی سعید بن یحییٰ اموی، مغازی واقدی، دلائل نبوة بیہقی، الروض الانف سھیلی، التنویرفی مولد السراج المنیر عمر بن وحیہ الکلبی، تاریخ ابن عساکر وغیرہ۔
فقہ و کلام:
کتاب الام امام شافعی، الارشادفی الکلام امام الحرمین، کتاب الاموال ابوعبیدالقاسم، الاشراف علی مذاہب الاشراف ابن ھبیر ہ وغیرہ۔
لغات:
الصحاح ابونصر جوہری، معانی القرآن ابن زیاد الفراء وغیرہ۔
ان مصادر کے علاوہ فضائل شافعی ابن ابی حاتم، کتاب الآثار و الصفات بیہقی، کشف الغطاء فی تبیین الصلوٰ ة الوسطیٰ و میاطی، کتاب التفکر والا اعتبار ابن ابی الدنیا، السر المکتوم رازی اور دیگر متعدد کتب کے حوالے بھی ہمیں زیر بحث کتاب میں ملتے ہیں، جن سے ابن کثیر کے وسعت مطالعہ اور تحقیقی میدان میں دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔
حافظ ابن کثیر نے اپنی کئی تصانیف کے حوالے بھی ”تفسیر“ میں دئیے ہیں، مثلاً البدایہ والنھایہ کتاب السیرة الاحکام الکبیر صفتہ النار، احادیث الاصول، جزء فی ذکر تطہیر المساجد، جزء فی الصلوٰة الوسطیٰ، جزء فی ذکر فضل یوم عرفہ، جزء فی حدیث الصور وغیرہ۔ (۵)۔
منھج:
تفسیرکے اصولوں کا التزام :
علامہ ابن کثیر نے زیر تبصرہ کتاب کا نہایت مفصل مقدمہ تحریر کیا ہے اور تفسیر کے درج ذیل اصول متعین کیے ہیں: تفسیر القرآن بالقرآن۔ تفسیر القرآن بالسنتہ۔ تفسیر القرآن باقوال الصحابہ۔ تفسیر القرآن باقوال التابعین(۶)
یہ مرکزی اور بنیادی اصول تفسیر ابن کثیر میں یکساں طور پر بالترتیب نظر آتے ہیں۔ امام موصوف سلیس اور مختصرعبارت میں آیات کی تفسیر کرتے ہیں ایک آیت کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے کئی قرآنی آیات یکے بعد دیگرے پیش کرتے ہیں اور اس سے متعلق جملہ معلوم احادیث ذکر کرتے ہیں، بعدازاں صحابہ،تابعین اور تبع تابعین کے اقوال و آثاردرج کرتے ہیں۔ اس انداز میں مثالیں ان کی تفسیر میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ سورة المومنون کی آیت۵۰ :
”وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّہ اٰیٰةًً وَّاٰوَیْنٰھُمَآ اِلٰی رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ“
کی تفسیر میں متعددروایات و اقوال نقل کیے ہیں اور مختلف مفاہیم بیان کیے ہیں۔ ایک مفہوم کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
”یہ مفہوم زیادہ ”واضح اور ظاہر ہے، اس لیے کہ دوسری آیت میں بھی اس کا تذکرہ ہے، اور قرآن“ کے بعض حصے دوسرے حصوں کی تفسیر کرتے ہیں اور یہی سب سے عمدہ طریقہ تفسیرہے، اس کے بعد صحیح حدیثوں کا اور ان کے بعد آثار کا نمبر آتا ہے۔" (۷)
نقد و جرح:
حافظ ابن کثیر ایک بلند پایہ محدث تھے، اس لیے انہوں نے محدثانہ طریق پر یہ کتاب مرتب کی ہے اور نہایت احتیاط سے صحیح حدیثوں کے انتخاب کی کوشش کی ہے۔ وہ دوران بحث جرح و تعدیل کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے صحیح روایات کو نکھار کر پیش کرتے ہیں،بعض روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں جبکہ غلط اور فاسد روایتوں کی تردید کرتے ہیں، مثلاً آیت ”یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ“ (الانبیاء: ۱۰۴) کے بارے میں ابن عمر سے روایت ہے کہ سجل آنحضور کے ایک کاتب کا نام تھا۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے ابن کثیر تحریر کرتے ہیں:
”یہ منکر روایت ہے اور یہ قطعاً صحیح نہیں۔ ابن عباس سے بھی جو روایت بیان کی جاتی ہے، وہ ابوداؤد میں ہونے کے باوجود غلط ہے۔ حفاظ کی ایک جماعت نے اس کی وضعیت پر ایک مستقل رسالہ تحریر کیا ہے اور ابن جریر نے بھی اس کا نہایت پر زور رد کیا ہے۔ اس روایت کے ضعیف ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ کے تمام کاتبین وحی نہایت مشہور لوگ ہیں ان کے نام معروف ہیں۔ صحابہ میں بھی کسی کا نام سجل نہ تھا۔" (۸)
علامہ ابن کثیر مختلف روایتوں کے متعدد طرق و اسناد کا ذکر کے روات پر بھی جرح کرتے ہیں مثلاً سورة البقرة کی آیت ۱۸۵:
”ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰاتٍ مِّنَ الْھُدٰی"
کے تحت ابومعشر نجیح بن عبد الرحمن المدنی کو ضعیف قرار دیا ہے (۹) اسی طرح سورہ مذکورہ کی آیت ۲۵۱:
”وَ لَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ“
کی تفسیر میں مختلف طرق سے ایک روایت بیان کی ہے اور یحییٰ بن سعید کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (۱۰)
سورة نساء کی آیت۴۳:
”یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوٰةَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا“
کی تفسیر میں سالم بن ابی حفصہ کو متروک اور ان کے شیخ عطیہ کوضعیف قرار دیا ہے۔ (۱۱) اسی سورت کی آیت ۹۳:
”وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مَُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہ جَھَنَّمُ الخ
کے سلسلے میں فرماتے ہیں۔ ابن مردویہ میں حدیث ہے کہ جان بوجھ کر ایمان دار کو مار ڈالنے والا کافر ہے یہ حدیث منکر ہے اور اس کی اسناد میں بہت کلام ہے۔ (۱۲) ابن کثیر نے حدیث کے ساتھ ساتھ آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی کثرت سے نقل کئے ہیں لیکن ان کی صحت جانچنے کے لئے یہاں بھی انہوں نے بحث وتنقید کا معیار برقرار رکھا ہے اور ان کی تائید وتردید میں اپنی معتبر رائے کا اظہار کیا ہے مثلاً سورة النساء کی آیت ۴۱:
”فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَہِیْدٍ الخ“
کی تفسیر میں ابوعبداللہ قرطبی کی کتاب ”تذکرہ“ کے حوالے سے حضرت سعید بن مسّیب کا قول نقل کرتے ہیں اور پھرفرماتے ہیں۔ ”یہ اثر ہے اور اس کی سند میں انقطاع ہے۔ اس میں ایک راوی مبُہم ہے، جس کا نام ہی نہیں نیز یہ سعید بن مسیب کا قول ہے جو حدیث مرفوع بیان ہی نہیں کرتے۔ " (۱۳)
جرح وقدح کے ضمن میں ابن کثیر تاریخ غلطیوں اور حوالوں کی بھی تردید کرتے ہیں،مثلاً
”واذا تتلیٰ علیھم اْٰیٰتناٰ قالو اقد سمعنا لونشآ ء لقلنا مثل ھذا۔ ۔ ۔ الخ (الانفال: ۳۱)
کے تحت لکھتے ہیں:
”حضور نے بدر کے روز تین قیدیوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ (۱) عقبہ بن ابی معیط (۲) طعیمہ بن عدی
(۳) نضر بن حارث۔ سعید بن جبیر نے ایک روایت میں طعیمہ کی بجائے مطعم بن عدی کا نام بتایا ہے۔ یہ بات غلط ہے، کیونکہ مطعم بن عدی تو بدر کے روز زندہ ہی نہیں تھا، اس لیے اس روز حضور نے فرمایا تھا کہ اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور ان مقتولین میں سے کسی کا سوال کرتا میں تو اس کو وہ قیدی دے دیتا۔ آپ نے یہ اس لیے فرمایا تھاکہ مطعم نے آنحضرت کو اس وقت تحفظ دیا تھا جب آپ طائف کے ظالموں سے پیچھا چھڑا کر مکہ واپس آرہے تھے۔" (۱۴)
شان نزول کا بیان:
اگر کسی سورة یا آیت کا شان نزول ہے تو اما م ابن کثیر اپنی ”تفسیر“ میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرة کی آیت ۱۰۹:
”ودکثیر من اہل الکتاب لویر دونکم من بعد ایمانکم۔ ۔ ۔ الخ“
کے تحت لکھتے ہیں:
”ابن عباس سے روایت ہے کہ حی بن اخطب اور ابویا سر بن اخطب دونوں یہودی مسلمانوں کے سب سے زیادہ حاسد تھے اور وہ لوگوں کو اسلام سے روکتے تھے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ زہری کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف شاعر تھا اور وہ اپنی شاعری میں نبی کی ہجو کیا کرتا تھا۔ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔" (۱۵) سورة اخلاص کا شان نزول اس طرح بیان کیا ہے:
”مسند احمد میں ہے کہ مشرکین نے حضور سے کہا اپنے رب کے اوصاف بیان کرو اس پر یہ آیت اتری اور حافظ ابویعلی موصلی کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول کریم سے یہ سوال کیا اس کے جواب میں یہ سورہ اتری۔ (۱۶)
فقہی احکام کا بیان :
ابن کثیر احکام پر مشتمل آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فقہی مسائل پر بحث کرتے ہیں اور اس سلسلے میں فقہا کے اختلافی اقوال و دلائل بیان کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرہ کی آیت
”قد نری تقلب وجھک فی السماء۔ ۔ الخ“
کے تحت لکھتے ہیں: ”مالکیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نمازی حالت نماز میں اپنے سامنے اپنی نظر یں رکھے نہ کہ سجدہ کی جگہ جیسا کہ شافعی، احمد اور ابو حنیفہ کا مسلک ہے، اس لیے کہ آیت کے لفظ یہ ہیں۔
”فول و جھک شطر المسجد الحرام"
یعنی مسجد حرام کی طرف منہ کرو اور اگرسجدے کی جگہ نظر جمانا چاہے گا تو اسے قدرے جھکنا پڑے گا اور یہ تکلف خشوع کے خلاف ہو گا۔ بعض مالکیہ کایہ قول بھی ہے کہ قیام کی حالت میں اپنے سینے پر نظر رکھے۔ قاضی شریح کہتے ہیں کہ قیام میں سجدے کی جگہ نظر رکھے جیسا کہ جمہور علماء کا قول ہے اس لیے کہ اس میں پورا پورا خشوع وخضوع ہے۔ اس مضمون کی ایک حدیث بھی موجود ہے اور رکوع کی حالت میں اپنے قدموں کی جگہ نظر رکھے اور سجدے کے وقت ناک کی جگہ اور قعدہ کی حالت میں اپنی آغوش کی طرف۔ (۱۷)
”فمن شھد منکم الشھر“ (البقرة: ۱۸۵)
کی تفسیر میں موٴلف نے چار مسائل کا ذکر کر کے اس بارے میں علما ء کے مختلف مسالک اور ان کے براہین و دلائل بیان کیے ہیں۔ (۱۸)
سورہ نساء کی آیت ۴۳ کے تحت تیمم کے مسائل اور احکام ذکر کیے گئے ہیں۔ (۱۹)
”لایواخذکم اللّٰہ باللغوفی ایمانکم“الخ (سورة المائدہ:۸۹)
کے تحت قصداً قسم کے سلسلے میں کفارہ ادا کرنے کے مسائل بیان کئے گئے ہیں (۲۰) امام ابن کثیر فقہی مسائل میں عموماً شافعی مسلک کی تائید کرتے ہیں۔
روایات و قول میں تطبیق:
ابن کثیر مختلف و متضاد روایات میں جمع و تطبیق کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے مابین محاکمہ کرتے ہیں۔ مثلاً سورة آلِ عمران کی آیت ۱۶۹
”ولاتحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتاً بل احیاً ء عند ربھم یرزقون“
کی تفسیر میں لکھتے ہیں : صحیح مسلم میں ہے، مسروق کہتے ہیں ہم نے عبد اللہ ابن مسعود سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا: آپ نے فرمایا: شہیدوں کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور ان کیلئے عرش کی قند یلیں ہیں۔ وہ ساری جنت میں جہاں کہیں چاہیں، کھائیں پےئیں اور قندیلیوں میں آرام کریں۔ لیکن مسند احمد میں ہے کہ شہید لوگ جنت کے دروازے پر نہر کے کنارے سبز گنبد میں ہیں۔ صبح و شام انہیں جنت کی نعمتیں پہنچ جاتی ہیں۔ دونوں حدیثوں میں تطبیق یہ ہے کہ بعض شہداء وہ ہیں جن کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور بعض و ہ ہیں جن کا ٹھکانہ یہ گنبد ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جنت میں سے پھرتے پھراتے یہاں جمع ہوتے ہوں اور پھر انہیں یہیں کھانے کھلائے جاتے ہوں۔ ” واللہ اعلم‘ ‘ (۲۱)
آپ مختلف تفسیری اقوال میں بھی تطبیق دیتے ہیں مثلاً سورة قصص کی آیت (۸۵) ”لر آدک الیٰ معاد“ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس کے تین قول نقل کیے ہیں (۱) موت (۲) جنت (۳) مکہ۔ ان تینوں اقوال میں یوں تطبیق دی ہے کہ مکہ کا مطلب فتح مکہ ہے جوحضوراکرم کی موت کی قربت کی دلیل ہے اور روز قیامت مراد لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہر حال موت کے بعد ہی ہو گا اور جنت اس لیے کہ تبلیغ رسالت کے صلہ میں آپ کا ٹھکانہ وہی ہو گا۔ (۲۲)
قرآنی آیات کا ربط و تعلق:
ابن کثیر قرآن مجید کے ربط و نظم کے قائل تھے۔ وہ اپنی ”تفسیر" میں آیات کے باہمی تعلق اور مناسبت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قرآن پاک ایک مربوط منظم کتاب نظر آتی ہے، اس سلسلے میں متعدد مثالیں ”تفسیر ابن کثیر“ میں نظر آتی ہیں مثلاً آیت
”انما الصدٰقٰت للفقر آ ء والمساکین۔ ۔ ۔ الخ“ (سورہ توبہ: ۶۰)
کے سلسلے میں رقمطر از ہیں۔
”سورة توبہ کی آیت ۵۸
”ومنھم من یلمزک فی الصدقت۔ ۔ ۔ الخ“
میں ان جاھل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول پر تقسیم صدقات کے سلسلے میں اعتراض کرتے تھے۔ اب یہاں اس آیت میں فرمایا کہ تقسیم زکوةٰ پیغمبر کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتلائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے، ہم نے خود اس کی تقسیم کر دی ہے، کسی اور کے سپرد نہیں کی۔" (۲۳)
”اولئٓک یجزون الغرفة بما صبروا۔ ۔ ۔ الخ“ (سورہ الفرقان: ۷۵،۷۶)
کے متعلق فرماتے ہیں۔ ’چونکہ خدائے رحمن نے اس سے پہلی آیات میں اپنے مومن بندوں کے پاکیزہ اوصاف اور عمدہ طور طریقوں کا ذکر کیا تھا، اس لیے اس کی مناسبت سے اس آیت میں ان اجزا کا ذکر کیا ہے۔" (۲۴)
قرآن مجید میں بعض مقامات پر مومن اور باطل فرقوں کیلئے اسلوب تقابل اختیار کیا گیا ہے جو اس کے منظم و مربوط ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے علامہ ابن کثیر نے یہاں بھی آیتوں کی مناسبت اور ان کا باہمی ربط بیان کیا ہے، مثلاً
”وبشرالذین امنوا وعملو الصٰالحٰتِ۔ ۔ ۔ الخ“ (سورةالبقرة :۲۵)
کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔
”چونکہ اللہ تعالی نے پہلے اپنے دشمنوں یعنی بدبخت کفار کی سزا اور رسوائی کا تذکرہ کیا تھا، اس لیے اب اس کی مناسبت سے یہاں اس کے مقابلہ میں اپنے دوستوں یعنی خوش قسمت ایماندار، صالح و نیک لوگوں کے اجر کا ذکر کر رہا ہے اور صحیح قول کے مطابق قرآن مجید کے مثالی ہونے کا یہی مطلب ہے کہ ایمان کے ساتھ کفر اور سعادتمندوں کے ساتھ بدبختوں یا اس کے برعکس یعنی کفر کے ساتھ ایمان اور بدبختوں کے ساتھ سعادتمندوں کا تذکرہ کیا جائے۔ اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی چیز کے ساتھ اس کے مقابل کا ذکر کیا جائے تو یہ مثانی کہلائے گا اور اگر کسی چیز کے ساتھ اسکے امثال و نظائر کا تذکرہ کیا جائے تو یہ متشابہ ہو گا۔"(۲۵)
حروف مقطعات پر بحث:
حروف مقطعات کے بارے میں امام ابن کثیر کا نقطہ نظریہ ہے:
”جن جاہلوں کا یہ خیال ہے کہ قرآن کی بعض چیزوں کی حیثیت محض تعبدی ہے، وہ شدید غلطی پر ہیں۔ یہ تو بہر حال متعین ہے کہ ان حروف (مقطعات ) کے کوئی نہ کوئی معنی ضرور ہیں، خدا نے ان کو عبث نازل نہیں فرمایا، اگر ان کے متعلق نبی کریم سے کوئی بات ثابت ہو گی تو ہم اسے بیان کرینگے اور اگر حدیث سے کوئی بات معلوم نہ ہو گی تو ہم توقف کریں گے اور یہ کہیں گے کہ (امنابہ کل من عندہ ربنا )۔ حروف مقطعات کے متعلق علمائے امت کا کسی ایک قول اور مفہوم پر اجماع نہیں ہے بلکہ اختلافات ہیں، اس لیے اگر کسی دلیل سے کسی کے نزدیک مفہوم زیادہ واضح ہے تو اس کو وہ مفہوم اختیار کر لینا چاہیے، ورنہ حقیقت حال کے انکشاف تک توقف کرنا چاہیے۔"(۲۶)
ابن کثیر نے زیر بحث کتاب میں حروف مقطعات پر عمدہ بحث کی ہے اس سلسلے میں وہ مختلف مفسرین کے اقوال کی روشنی میں ان کے معانی ومفاہیم متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں (۲۷)
فضائل السورآیات:
”تفسیر ابن کثیر“ میں سورتوں اور آیتوں کے فضائل و خصوصیات، آنحضور کا ان پر تعامل اور امت کو ترغیب و تلقین کا تذکرہ پایاجاتا ہے۔ اس سلسلے میں ابن کثیر نے اہم کتب احادیث کے علاوہ امام نسائی کی معروف تصنیف ”عمل الیوم واللیلة“ اور امام بیہقی کی ”کتاب الخلافیات“سے بھی استفادہ کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں سورة البقرہ اور سورة آلِ عمران کے فضائل کا مفصل بیان ہے۔ اسی طرح آیت
”ولقد اتیناک سبعاً من المثانی“ (سورہ الحجر: ۸۷)
کے تحت سبع مثانی کی تفسیر میں سات مطول سورتوں بشمول سورة البقرہ وآلِ عمران کے فضائل و خصائص تحریر کیے گئے ہیں۔ (۲۸)
امام ابن کثیر سورہ حشر کی آخری تین آیتوں کے متعلق فرماتے ہیں:
”مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ جو شخص صبح کو تین مرتبہ
اعوزباللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم
پڑھ کر سورة حشر کی آخری تین آتیوں کو پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے جو شام تک اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا مرتبہ پاتا ہے اور جو شخص ان کی تلاوت شام کے وقت کرے، وہ بھی اسی حکم میں ہے“(۲۹)
امام صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”جادو کو دور کرنے اور اس کے اثر کو زائل کرنے کیلئے سب سے اعلیٰ چیز معوذ تان یعنی سورة الفلق اور سورة الناس ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ان جیسا کوئی تعویذ نہیں۔ اسی طرح آیت الکرسی بھی شیطان کو دفع کرنے میں اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔" (۳۰)
اشعار سے استشھاد:
ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ایک انداز یہ بھی اختیار کیا ہے کہ وہ کسی آیت کے معنی و مفہوم کو واضح کرنے کیلئے حسب موقع عربی اشعار پیش کرتے ہیں۔ یہ طرز غالباً انہوں نے طبری سے حاصل کیا ہے۔ آیت ”قل متاع الدنیا قلیل وًالاخرة خیر لمن اتقیٰ"۔ (النساء : ۷۷) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے موصوف نے ابومصہر کے یہ اشعار بیان کیے ہیں۔
ولاخیر فی الدنیا لمن لم یکن لہ من اللّٰہ فی دارالمقام نصیب۔
فان تعجب الدنیا رجالا فانھا متاع قلیل والزوال قریب (۳۱)
(اس شخص کیلئے دنیا میں کوئی بھلائی نہیں جس کو اللہ کی طرف سے آخرت میں کوئی حصہ ملنے والا نہیں۔ گو یہ دنیا بعض لوگوں کو پسندیدہ معلوم ہوتی ہے، لیکن دراصل یہ معمولی سافائدہ ہے۔ اور وہ بھی ختم ہونے والا ہے)۔
”وانی لاظنک یفرعون مثبوراً“ (سورہ بنی اسرائیل : ۱۰۲)
میں لفظ ”مثبور“ کے معنی ہلاک ہونا۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ معنی عبداللہ بن زبعریٰ کے اس شعر میں بھی ہیں:۔
”اذا جار الشیطٰین فی سنن الغی ومن مال میلہ مثبور۔" (۳۲)
جب شیطان سرکشی کے طریقوں پر چلتا ہے
اور پھر جو لوگ بھی سکے طریقے پر چلیں تو وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔
لغت عرب سے استدلال:
ابن کثیر تفسیر میں لغت سے بھی استدلال کرتے ہیں اور اقوال عرب کو نظائر و شواہد کے طور پر پیش کرتے ہوئے آیت کی تشریح و توضیح کرتے ہیں مثلاً ”فقلیلا مایوٴمنون“ (البقرة : ۸۸) کے متعلق لکھتے ہیں :
”اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ بالکل ایمان نہیں رکھتے ہیں، جیسے عرب کہتے ہیں۔ ”فلما رأیت مثل ھذاقط“ مطلب یہ ہے کہ میں نے اس جیسا بالکل نہیں دیکھا۔" (۳۳)
”ےئسلونک ماذا احل لھم قل احل لکم الطبیٰت وما علمتم من الجوارح مکلبین" (سورةالمائدة : ۴)
کی تفسیر میں لفظ ”جوارح“ کو زیر بحث لاتے ہیں اور لکھتے ہیں: ”شکاری حیوانات کو جوارح اس لیے کہا گیا ہے کہ جرح سے مراد کسب اور کمائی ہے، جیسے کہ عرب کہتے ہیں ”فلان جرح اہلہ خیراً“ یعنی فلاں شخص نے اپنے اہل و عیال کیلئے بھلائی حاصل کر لی ہے۔ نیز عرب کا ایک قول یہ بھی ہے ”فلاں لا جارح لہ" یعنی فلاں شخص کا کوئی کمانے والانہیں۔"(۳۴)
جمہور مفسرین اور ابن کثیر:
ابن کثیر اپنی ”تفسیر" میں متقد مین علمائے تفسیر کے مختلف اقوال کا قدر مشترک تلاش کر کے اس کو ہم معنی ثابت کرتے ہیں اور اکثر جمہور علماء اہل سنت والجماعت کے نقطہء نظر سے اتفاق کرتے ہیں مثلاً آیت
”ومن کان مریضا اوعلیٰ سفر فعدة من ایام اخر“ (سورةالبقرة ۱۸۵)
کے تحت ابن کثیر قضاء روزوں کے مسئلہ پر جمہور کا یہ مسلک اختیار کرتے ہیں کہ قصاء روزے پے در پے رکھنا واجب نہیں بلکہ یہ مرضی پر منحصر ہے کہ ایسے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے جائیں یا متواتر دنوں میں (۳۵)
ابن کثیر نقل و روایت میں مقلد جامدنہ تھے بلکہ ان کی تنقید و تردید بھی کرتے تھے، اس لیے وہ سلف کی تفسیروں کے پابند ہونے کے باوجود بعض اوقات ان کی آراء سے اختلاف بھی کرتے ہیں مثلاً آیت
”فلما اتھما صالحا جعلالہ شر کآ ء َ فیما اتھما،۔ ۔ ۔ الخ“
(الاعراف : ۱۹۰)
کی تفسیر میں ابن عباس کی روایت بیان کی ہے کہ حضرت حوا کی جو اولاد پیدا ہوتی تھی وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے مخصوص کر دیتی تھیں اور ان کا نام عبد اللہ، عبیداللہ وغیرہ رکھتی تھیں۔ یہ بچے مر جاتے تھے، چنانچہ حضرت آدم وحوا کے پاس ابلیس آیا اور کہنے لگا کہ اگر تم اپنی اولاد کا نام کوئی اور رکھو گے تو وہ زندہ رہے گا اب حوا کا جو بچہ پیدا ہوا تو ماں باپ نے اس کا نام عبدالحارث رکھا۔ اسی بناء پر اللہ نے فرمایا:
”جعلالہ شر کآ ءَ فیما اتھما“
اللہ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اللہ کے شریک قرار دینے لگے۔
پھر ابن کثیر لکھتے ہیں: ”اس روایت کو ابن عباس سے ان کے شاگردوں مجاہد، سعید بن جبیر، عکرمہ اور طقبہ ثانیہ کے فتادہ اور سدی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ اسی طرح سلف سے خلف تک بہت سے مفسرین نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے،لیکن ظاہر یہ ہے یہ واقعہ اہل کتاب سے لیا گیا ہے، اس کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن عباس اس واقعہ کو ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں، جیسے کہ ابن ابی حاتم میں ہے۔ میرے نزدیک یہ اثر ناقابل قبول ہے۔" (۳۶)
سورة حج کی آیت ۵۲ :
”وما ٓ ارسلنا من قبلک من رسول ولانبی الااذاتمنی القی الشیطٰن فی امنیة“
کے متعلق ابن کثیر کو جمہور کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں ہے، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:
”یہاں پر اکثر مفسرین نے غرانیق کا قصہ نقل کیا ہے اور یہ بھی کہ اس واقعہ کی وجہ سے اکثر مہاجرین حبشہ یہ سمجھ کر کہ اب مشرکین مکہ مسلمان ہو گئے ہیں، واپس مکہ آگئے لیکن یہ سب مرسل روایتیں ہیں جو میرے نزدیک مستند نہیں ہیں۔ ان روایات کو محمد بن اسحاق نے سیرت میں نقل کیا ہے، لیکن یہ سب مرسل اور منقطع ہیں۔ امام بغوی نے بھی اپنی تفسیر میں ابن عباس اور محمد بن کعب قرظی سے اس طرح کے اقوال نقل کرنے کے بعد خود ہی ایک سوال وارد کیا ہے کہ جب رسول کریم کی عصمت کا محافظ خود خدا تعالیٰ ہے تو ایسی بات کیسے واقع ہو گئی ؟ پھر اس کے کئی جوابات دےئے ہیں، جن میں سب سے صحیح اور قرین قیاس جواب یہ ہے کہ شیطان نے یہ الفاظ مشرکین کے کانوں میں ڈالے، جس سے ان کو یہ وہم ہو گیا کہ یہ الفاظ آنحضور کے منہ سے نکلے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ بلکہ یہ صرف شیطانی حرکت تھی، رسول کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔" (۳۷)
علم القراة اور لغوی تحقیق:
ابن کثیر قرآنی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے حسب موقع اختلاف قرأت و اعراب، صرفی و نحوی ترکیب اور الفاظ کی لغوی تحقیق کے علاوہ ان کے مصادر، تثنیہ، جمع اور اصطلاحی مفہوم بیان کرتے ہیں مثلاً آیت
”ولقد مکنکم فی الارض وجعلنا لکم فیھا معایش“ (الاعراف: ۱۰)
میں لفظ ”معائش“ کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں لفظ ”معایش“ کو سب لوگ (ی) کے ساتھ پڑھتے ہیں یعنی ہمزہ کے ساتھ ”مَعَائِش“ نہیں پڑھتے، لیکن عبدالرحمن بن ہرمز اس کو ہمزہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اور صحیح تو یہی ہے۔ جو اکثر کا خیال ہے یعنی بلاہمزہ، اس لیے کہ ”معایش“ جمع معیشتہ کی ہے۔ یہ مصدر ہے، اس کے افعال ”عاش، یعیش مَعِیشَة ہیں اس مصدر کی اصلیت ہے ” معیشة“ کسرہ (ی) پر ثقیل تھا، اس لیے عین کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے اور لفظ ”معیشة" معیشہ بن گیا ہے پھر اس واحد کی جب جمع بن گئی تو(ی) کی طرف حرکت پھر لوٹ آئی کیونکہ اب ثقالت باقی نہیں رہی، چنانچہ کہا گیا کہ مَعَایِش کا وزن مفاعل ہے اس لئے کہ اس لفظ میں (ی) اصل ہے بخلاف مدائن، صحائف اور بصائر کے کہ یہ مدنة صحیفة اور بصیرة کی جمع ہیں، چونکہ (ی) اس میں زائد ہے، لہذا جمع بروزن فعائل ہو گی اور ہمزہ بھی آئے گا۔ (۳۸)
”واذتاذن ربک لیبعثن علیھم۔ ۔ ۔ الخ“ (سورہ الاعراف: ۱۶۷)
میں لفظ ”تَاَذَّنَ“ پر اس طرح بحث کرتے ہیں۔ ”تاذن بروزن تفعل“ اذان سے مشتق ہے یعنی حکم دیا یا معلوم کرایا اور چونکہ اس آیت میں قوت کلام کی شان ہے، اس لیے لیبعثن کا (ل) معنائے قسم کا فائدہ دے رہا ہے، اس لیے(ل) ے بعد ہی یبعثن لا یا گیاھم کی ضمیر یہود کی طرف ہے۔" (۳۹)
لغوی بحث کی عمدہ مثال ہمیں زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں تعوذ، تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تفسیر میں نظر آتی ہے۔ ابن کثیر لفظ ”صلوٰة" کی تحقیق فرماتے ہیں: ’عربی لغت میں (صلوٰة ) کے معنی دعا کے ہیں۔ اعشیٰ کا شعر ہے۔
لھا حارس یبرح الدحر بیتھا وان ذا بحت صلی علیھا وزمزما
یہ شعر بھی اعشیٰ سے منقول ہے۔
واقابلھا الریح فی دنھا وصلی علی دنھا وارتسم
ان اشعار میں (صلوٰة) کا لفظ دعا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ شریعت میں اس لفظ کا استعمال نماز پر ہے۔ یہ رکوع وسجود اور دوسرے خاص افعال کا نام ہے جو جملہ شرائط صفات اور اقسام کے ساتھ سرانجام دےئے جاتے ہیں۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ نماز کو صلوٰة اس لیے کہا جاتا ہے کہ نمازی اللہ تعالیٰ سے اپنے عمل کا ثواب طلب کرتا ہے اور اپنی حاجتیں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو دو رگیں پیٹھ سے ریڑھ کی ہڈی کے دونوں طرف آتی ہیں، انہیں عربی میں ”صَلَوین“ کہتے ہیں۔ چونکہ نماز میں یہ ملتی ہیں۔ اس لیے نماز کو صلوٰة کہا گیا ہے، لیکن یہ قول ٹھیک نہیں۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ یہ ماخوذ ہے ”صَلّٰی“ سے، جس کے معنی ہیں چپک جانا اور لازم ہو جانا، جیسا کہ قرآن میں ہے ” لایصلاھا“ یعنی جہنم میں ہمیشہ نہ رہے گا مگر بدبخت۔ بعض علماء کا قول ہے کہ جب لکڑی کو درست کرنے کیلئے اسے آگ پر رکھتے ہیں تو عرب تَصِلیَہ کہتے ہیں۔ چونکہ نمازی بھی اپنے نفس کی کجی اور ٹیڑھ پن کو نماز سے درست کرتا ہے، اس لیے اسے صلوٰة کہتے ہیں جیسے قرآن میں ہے :
ان الصلوة تنھی عن الفحشاء والمنکر ولذکر اللہ اکبر
نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر ہی بڑا ہے۔
لیکن اس کا دعا کے معنی میں ہونا ہی زیادہ صحیح ہے اور زیادہ مشہور ہے۔ ”واللہ اعلم“(۴۰)
ابن کثیر مترادفات پر بھی خوبصورت انداز میں بحث کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں قلیل اورتھوڑی مقدار کیلئے بطور تمیثل نقیر، فتیل اور قطمیر کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ موصوف سورة نساء کی آیت۱۲۴:
”ومن یعمل من الصلحٰت من ذکر اوانثیٰ وھو مومن فاوٴلیٴٰک یدخلون الجنة ولایظلمون نقیراً ہ“
کے تحت مذکورالفاظ کی تشریح کرتے ہیں: ”کھجور کی گٹھلی کی پشت پر جوذرا سی جھلی ہوتی ہے، اسے نقیر کہتے ہیں۔ گٹھلی کے درمیان جو ہلکا سا چھلکا ہوتا ہے۔ اس کو فتیل کہتے ہیں۔ یہ دونوں کھجور کے بیج میں ہوتے ہیں اور بیج کے اوپر کے لفافے کو قطمیر کہتے ہیں اور یہ تینوں لفظ اس موقع پر قرآن میں آئے ہیں۔" (۴۱)
ناسخ و منسوخ:
ناسخ و منسوخ کی شناخت فن تفسیر میں نہایت اہم ہے۔ اس علم سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی کون سی آیت محکم ہے اور کون سی متشابہ۔ مفسر قرآن کیلئے اس علم میں مہارت نہایت ضروری ہے تاکہ وہ صحیح معنوں میں احکامات و مسائل کی توضیح و تشریح کر سکے۔ ابن کثیر اس علم میں بھی دسترس رکھتے تھے۔ وہ ناسخ و منسوخ آیات کی وضاحت، ان کے بارے میں مفسرین اور فقہاء کی اختلافی آراء اور جمہور کی تائید میں اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہیں۔ مثلاً
”والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا وصیة لازواجھم متاعا الی الحوال۔ الخ“ (سورةالبقرة: ۲۴۰)
کے متعلق اکثر صحابہ و تابعین سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت چار مہینے دس دن والی عدت کی آیت یعنی
”والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا یتربصن بانفسھن اربعة اشھر وعشراً (البقرة : ۲۳۴)
سے منسوخ ہو چکی ہے۔ (۴۲)
”انفرو خفافا و ثقالا وجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ ِ۔ ۔ ۔ الخ“ (التوبہ: ۴۱)
کے تحت لکھتے ہیں کہ اس آیت میں غزوہ تبوک کیلئے تمام مسلمانوں کو ہر حال میں نبی کے ہمراہ جانے کا حکم دیا گیا ہے، خواہ کوئی آسانی محسوس کرے یا تنگی، بڑھاپے کی حالت میں ہو یا بیماری کا عذر۔ لوگوں پر یہ حکم گراں گزرا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے آیت
”لیس علی الضعفآ ء ولاعلی المرضیٰ ولا علی الذین لایجدون ماینفقون حرج اذا نصحو اللہ ورسولہ" (التوبہ: ۹۱)
سے منسوخ کر دیا۔ یعنی ضعیفوں، بیماروں اور تنگ دست فقیروں پر جبکہ ان کے پاس خرچ تک نہ ہو، اگر وہ دین خدا اور شریعت مصطفی کے حامی، طرف دار اور خیر خواہ ہوں تو میدان جنگ میں نہ جانے پر کوئی حرج نہیں۔ (۴۳)
تلخیص کلام:
ابن کثیر کے انداز تحریر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ و ہ کسی آیت کی تفسیر میں جامع بحث اور تبصرہ کے بعد اس کا خلاصہ تحریر کرتے ہیں اور اخذ کردہ نتائج کو سامنے لاتے ہیں، مثلاً آیت
”فمن کان منکم مریضا اوعلیٰ سفر۔ ۔ ۔ ۔ الخ“ (سورةالبقرة: ۱۸۴)
کے متعلق احادیث و اقوال کی روشنی میں طویل گفتگو کے بعد اس کا لب لباب تحریر کیا ہے۔ (۴۴)
آیت ”قل انما حرم ربی الفواحش ماظھر منھا وما بطن والاثم والبغی بغیر الحق“ (سورةالاعراف: ۳۳)
کے تحت تشریح و توضیح کے بعد لکھتے ہیں :
”حاصل بحث تفسیر یہ ہے کہ ”اثم“ وہ خطایات ہیں جو فاعل کی اپنی ذات سے متعلق ہیں اور ”بغی“ وہ تعدی ہے جو لوگوں تک متجاوز ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونون چیزوں کو حرام فرمایا ہے۔" (۴۵)
خصوصیات:
تفسیر ابن کثیر کی چند نمایاں خصوصیات جو دوسری تفاسیرسے اسے ممتاز کرتی ہیں۔
اسرائیلیات:
منقولی تفاسیر کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ ان میں اسرائیلی خرافات کثرت سے نقل کی گئی ہیں۔ ایسی روایات کے بارے میں ابن کثیر اپنا نقطہ نظر ”تفسیر القرآن العظیم“ میں یوں بیان کرتے ہیں:
”ہمارا مسلک یہ ہے کہ اس تفسیر میں اسرائیلی روایات سے احتراز کیا جائے۔ ان میں پڑنا وقت کا ضیاع ہے۔ اس قسم کی اکثر روایتوں میں جھوٹ بھی ہوتا ہے، کیونکہ اس امت کے ائمہ فن اور نقاد ان حدیث کی طرح اہل کتاب نے صحیح و سقیم میں تفریق نہیں کی۔" (۴۶)
اگرچہ تفسیر ابن کثیر بھی اسرائیلیات سے خالی نہیں ہے تاہم اس کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں موٴلف اسرائیلی واقعات محض استشھاد کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ جن پر اجمالاً اور بعض اوقات تفصیلاً نقد و جرح کرتے ہیں، مثلاً سورة البقرة کی آیت ۶۷
”ان اللہ یا مرکم ان تذبحوا بقرة"
کی تفسیر کرتے ہوئے بنی اسرائیل کی گائے کا طویل قصہ ذکر کیا ہے۔ پھر اس میں سلف سے منقول روایات تحریر کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔
”ابو عبیدہ، ابو العالیہ اور سدی سے جو روایات منقول ہیں،ان میں اختلاف ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ روایات بنی اسرائیل کی کتابوں سے ماخوذ ہیں۔ بلاشبہ ان کو نقل کرنا درست ہے مگر ان کی تصدیق و تکذیب نہیں کی جاسکتی، لہذا ان پر اعتماد کرنا درست نہیں ماسوا اس روایت کے جو اسلامی حقائق کے مطابق ہو“(۴۷)
اسی طرح سورة انبیاء کی آیت۵۱
”ولقد اٰتینآ ابراہیم رشدہ من قبل وانا بہ علمین“
کے تحت تحریر کرتے ہیں۔
”یہ جو قصے مشہور ہیں کہ حضرت ابراہیم کے دودھ پینے کے زمانے میں ہی ان کی والدہ نے انہیں ایک غار میں رکھا تھا جہاں سے وہ مدتوں بعد باہر نکلے اور مخلوقات خدا پر خصوصاً چاند تاروں پر نظر ڈال کرخدا کو پہچانا۔ یہ سب بنی اسرائیل کے افسانے ہیں۔ ان میں سے جو واقعہ کتاب و سنت کے مطابق ہو وہ سچا اور قابل قبول ہے اس لیے کہ وہ صحت کے مطابق ہے او رجو خلاف ہو وہ مردود اورنا قابل قبول ہے اور جسکی نسبت ہماری شریعت خاموش ہو، مخالفت و موافقت کچھ نہ ہو، گو اس کا روایت کرنا بقول اکثر مفسرین جائز ہے، لیکن نہ تو ہم اسے سچا کہہ سکتے ہیں نہ غلط۔ ان (اسرائیلیات) میں سے اکثر واقعات ایسے ہیں جو ہمارے لیے کچھ سند نہیں اور نہ ہی ان میں ہمارا کوئی دینی نفع ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہماری جامع، نافع، کامل و شامل شریعت اس کے بیان میں کو تاہی نہ کرتی۔" (۴۸)
زیر بحث تفسیر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن کثیر اسرائیلیات کے بارے میں اپنے موٴقف اور نظریہ پر مکمل طور پر کاربند نہ رہ سکے اور تساہل و تسامح اختیار کرتے ہوئے بعض ایسی روایات بھی بیان کی ہیں جن کو فی الواقع خود ان کے اصول کے مطابق اس تفسیر میں شامل نہیں کرنا چاہیے تھا، مثلاً ”واتخذ اللہ ابراہیم خلیلاً“ (النساء : ۱۲۵) کے متعلق ابن جریر کے حوالے سے ایک اسرائیلی روایت ذکر کی ہے جس کی حقیقت داستان سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
”بعض کہتے ہیں کہ ابراہیم کو خلیل اللہ کا لقب اس لیے ملاکہ ایک دفعہ قحط سالی کے موقع پر آپ اپنے دوست کے پاس مصر یا موصل گئے تاکہ وہاں سے کچھ اناج وغیرہ لے آئیں، لیکن یہاں کچھ نہ ملا اور خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ جب آپ واپس اپنی بستی کے قریب پہنچے تو خیال آیا کہ ریت کے تودے میں سے اپنی بوریاں بھر کر لے چلوں تاکہ گھروالوں کو قدرے تسکین ہو جائے، چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا اور ریت سے بھری بوریاں جانوروں پر لاد کر لے چلے۔ قدرت خداوندی سے وہ ریت سچ مچ آٹا بن گیا۔ آپ تو گھر پہنچ کر لیٹ گئے، تھکے ہارے تھے، آنکھ لگ گئی۔ گھر والوں نے بوریاں کھولیں اور انہیں بہترین آٹے سے بھر ا ہوا پایا، آٹا گوندھا اور روٹیاں پکائیں جب یہ جاگے اور گھر میں سب کو خوش پایا اور روٹیاں بھی تیار دیکھیں تو تعجب سے پوچھنے لگے آٹا کہاں سے آیا ہے جس سے روٹیاں پکائیں؟ انہوں نے کہا کہ آپ ہی تو اپنے دوست کے ہاں سے لائے ہیں۔ اب آپ سمجھ گئے اور فرمایا، ہاں! یہ میں اپنے دوست اللہ عزوجل سے لایا ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو اپنا دوست بنا لیا اور آپ کا نام خلیل اللہ رکھ دیا۔" (۴۹)
اسی طرح
”وایوب اذنادیٰ ربہ انی مسنی الضروانت ارحم الراحمین“ (سورةالانبیاء: ۸۳)
کے تحت بعض ایسی روایات نقل کی ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں۔ (۵۰)
”واتینا ہ أھلہ ومثلھم معھم رحمة" (سورةالانبیا: ۸۴)
کی تفسیر میں ایک روایت تحریر ہے کہ حضرت ایوب کی بیوی کا نام رحمت ہے۔ (۵۱)
ابن کثیر اس قسم کی روایات میں یہ انداز اختیار کرتے ہیں کہ ان کی تصدیق یا تکذیب کیے بغیر واللہ اعلم کہہ کر ان پر نقدو تبصرے سے گریز کرتے ہیں۔
غیر ضروری مسائل کی تحقیق و تجسّس سے احتراز:
کتب تفسیر کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ ان میں غیر ضروری اور بے سود باتوں کی تحقیق بڑے اہتمام سے کی جاتی ہے جو قرآن کے مقصد تذکیر و استدلال کے بالکل خلاف ہے۔ ابن کثیر نے ایسے مسائل کی تحقیق و جستجو کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اپنی تفسیر میں غیر ضروری اور غیر اہم مباحث سے حتیٰ الامکان پر ہیز کیا ہے، مثلاً ”فخذاربعة من الطیر“ (سورةالبقرة : ۲۶۰) کے متعلق لکھتے ہیں:
”ان چاروں پرندوں کی تعیین میں مفسرین کا اختلاف ہے، حالانکہ ان کی تعیین بے سود اور غیر ضروری ہے۔ اگر یہ کوئی اہم بات ہوتی تو قرآن ضرور اسکی تصریح کرتا۔" (۵۲)
وسیع معلومات:
ابن کثیر نے تفسیر قرآن مرتب کرنے کیلئے ہر اس حدیث اور اثر کو اکٹھا کیاجو اس میدان میں ممکن تھی۔ قاری اس کتاب کے مطالعے سے نہ صرف احادیث و روایات کے وافر ذخیر ے سے مستفیض ہوتا ہے بلکہ اسے تفسیر، فقہ و کلام اور تاریخ و سیرت کی وسیع اور مستند معلومات بھی حاصل ہوتی ہیں۔
عدم تکرار:
ابن کثیر کی تفسیر میں تکرار نہیں پایا جاتا ماسوا ان بعض روایات کے جو انہوں نے مقدمہ کی بحث میں نقل کی ہیں۔ وہ کسی آیت کی تفسیر و تشریح کو دہرانے کی بجائے اس کا اجمالاً ذکر کرتے ہیں اور اس کی قبل ازیں تفسیر کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں، مثلاً موصوف حروف مقطعات پر شرح و بسط کے ساتھ سورة بقرہ کی تفسیر میں بحث کر چکے ہیں، اس لیے بعد میں جن سورتوں میں یہ حروف آئے ہیں، ان کو زیر وضاحت نہیں لاتے مثلاً ”مرج البحرین یلتقیٰن“ (سورةالرحمن: ۱۹) کے متعلق لکھتے ہیں:
”ہم اس کی پوری تشریح سورة فرقان کی آیت ”وھو الذی مرج البحرین۔ ۔ ۔ الخ“ کی تفسیر میں بیان کر چکے ہیں۔" (۵۳)
ماثوردعاؤں کا بیان:
”تفسیر ابن کثیر“ میں موقع و محل کے مطابق آنحضور اور صحابہ کرام کے معمول کی بعض دعاؤں کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ مثلاً رسول کریم تہجد کے وقت جو دعائیں پڑھتے تھے، ان کو نقل کیا گیا ہے۔ (۵۴)۔
سنن ابن ماجہ کے حوالے سے روزہ افطار کے وقت صحابہ کرام کی یہ دعا ذکر کی گئی ہے:
”اللھم انی اسئالک برحمتک التی وسعت کل شئی ان تغفرلی“ (۵۵)
حضرت ابوبکر کے سوال پر نبی کریم نے شرک سے بچنے کی یہ دعا سکھائی
”اللھم انی اعوذبک انی اشرک بک وانا اعلم واستغفرک ممالا اعلم“ (۵۶)
ْقصص و احکام کے اسرار:
”تفسیر ابن کثیر" کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں واقعات اور احکام کے اسرار و رموز بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسلوب مصنف نے امام فخر الدین رازی کی پیروی میں اختیار کیا ہے۔ چنانچہ ابن کثیر نے مختلف واقعات اور قصص کو بحث و تحقیق کا موضوع بنایا ہے اور حقائق تک پہنچنے کی سعی کی ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کے احکام کو بھی انہوں نے دقت نظر سے لکھا ہے، مثلاً سورة فاتحہ کے تمام مطالب کی حکیمانہ تشریح کی ہے اور پھر لکھتے ہیں:
”یہ مبارک سورة نہایت کارآمد مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان سات آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد، اس کی بزرگی، اس کی ثناء و صفت اور اس کے پاکیزہ ناموں کا اور اس کی بلندو بالا صفتوں کا بیان ہے۔ اس سورة میں قیامت کے دن کا ذکر ہے اور بندوں کو اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ وہ صرف اسی سے سوال کریں، اس کی طرف تضرع وزاری کریں، اپنی مسکینی و بے کسی کا اقرار کریں، اس کی عبادت خلوص کے ساتھ کریں اس کی توحید والوہیت کا اقرار کریں اور اسے شریک، نظیر اور مثل سے پاک اور برتر جانیں، صراط مستقیم کی اور اس پر ثابت قدمی کی اس سے مدد طلب کریں۔ یہی ہدایت انہیں قیامت کے دن پل صراط سے بھی پار پہنچا دے گی اور نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے قرب میں جنت الفردوس میں جگہ دلوائے گی۔ یہ سورة نیک اعمال کی ترغیب پر بھی مشتمل ہے تاکہ قیامت کے دن نیک لوگوں کا ساتھ ملے اور باطل راہوں پر چلنے سے خوف دلایا گیا ہے تاکہ قیامت کے دن ان کی جماعتوں سے دوری ہو۔" (۵۷)
”ویقمیون الصلوٰة وممارز قنٰھم ینفقون" (سورةالبقرة: ۳)
کے تحت لکھتے ہیں ”قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز کا اور مال خرچ کرنے کا ذکر ملا جلاملتا ہے، اس لیے نماز خدا کا حق ہے اور اس کی عبادت ہے جو اس کی توحید، اس کی ثناء اس کی بزرگی، اس کی طرف جھکنے، اس پر توکل کرنے اس سے دعا کرنے کا نام ہے اور خرچ کرنا مخلوق کی طرف احسان ہے جس سے انہیں نفع پہنچے۔ اس کے زیادہ حقدار اہل و عیال اور غلام ہیں، پھر دور والے اجنبی۔ پس تمام واجب خرچ اخراجات اور فرض زکوٰة اس میں شامل ہے۔"(۵۸)
سورة ھود کی آیت ۹۴
”واخذت الذین ظلموا اٰلصیحة“
کے سلسلے میں کہتے ہیں ” یہاں صیحہ اعراف میں رجفہ اور سورة شعراء میں ”عذاب یوم الظلة“ کا ذکر ہے، حالانکہ یہ ایک ہی قوم کے عذاب کا تذکرہ ہے، لیکن ہر مقام پر اس لفظ کو لایا گیا ہے جس کا موقع کلام متقاضی تھا۔ سورة اعراف میں حضرت شعیب کو قوم نے بستی سے نکالنے کی دھمکی دی تھی، اس لیے رجفہ کہنا مناسب تھا، یہاں چونکہ پیغمبر سے ان کی بدتمیزی اور گستاخی کا ذکر تھا، اس لیے صیحہ کا لفظ لا یا گیا ہے اور سورةالشعراء میں انہوں نے بادل کا ٹکڑا آسمان سے اتارنے کا مطالبہ کیا تھا، اس لیے وہاں
”فاخذھم عذاب یوم الظلة"
کہا گیا اور یہ سب اسراردقیقہ ہیں۔" (۵۹) حیرانگی کی بات ہے کہ یہی اسلوب بعد میں علامہ محمود آلوسی نے اپنایا ہے۔
مصادر مراجع کی نشاندہی:
امام ابن کثیر آیات کی تفسیر کرتے ہوئے بوقت ضرورت اضافی معلومات اور اختلافی نکات کو نمایاں کرنے کیلئے اکثر موٴلفین کے نام اور بعض اوقات ان کی کتابوں کے حوالے دیتے جاتے ہیں، جن کو تصنیف ممدوح میں مرجع بنایا گیا ہے، اس طریقہ کار کے ضمنی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ محققین کیلئے ان مصادر سے براہ راست مستفیض ہونے کی سہولت ہو گئی، دوسرا یہ کہ سابقہ موٴلفین کی بیش قیمت آراء اور ان کی بہت سی ایسی کتابیں جواب نایاب ہیں، ان کے نام اور اقتباسات کے نمونے بھی محفوظ ہو گئے۔
تفسیر ابن کثیر کی قدرومنزلت:
موٴرخین اور اصحابِ نظر اس تفسیر کی تعریف اور توصیف میں رطب اللسان ہیں۔
امام سیوطی کی رائے ہے کہ ”اس طرز پر اب تک اس سے اچھی کوئی تفسیر نہیں لکھی گئی۔" (۶۰)
صاحب ”البدرالطالع“ فرماتے ہیں:
”ابن کثیر نے اس میں بہت سا مواد جمع کر دیا ہے۔ انہوں نے مختلف مذاہب و مسالک کا نقطہ نظر اور اخبارو آثار کا ذخیرہ نقل کر کے ان پر عمدہ بحث کی ہے۔ یہ سب سے بہترین تفسیرنہ سہی لیکن عمدہ تفاسیر میں شمار ہوتی ہے۔" (۶۱)
ابوالمحاسن الحسینی کا بیان ہے:
”روایات کے نقطہ نظر سے یہ سب سے مفید کتاب ہے کیونکہ (ابن کثیر) اس میں اکثر روایات کی اسناد پر جرح و تعدیل سے کلام کرتے ہیں اور عام روایت نقل کرنے والے مفسرین کی طرح وہ مرسل روایتیں نہیں ذکر کرتے۔" (۶۲)
علامہ احمد محمد شاکر لکھتے ہیں:
”امام المفسیرین ابو جعفر الطبری کی تفسیر کے بعد ہم نے عمدگی اور گہرائی میں (تفسیر ابن کثیر کو) سب سے بہتر پایا ہے اور ہم نہ تو ان دونوں کے درمیان اور نہ ہی ان کے بعد کی کسی تفسیر سے موازنہ کر سکتے ہیں جو ہمارے سامنے ہیں۔ ہم نے ان دونوں جیسی کوئی تفسیر نہیں دیکھی اور نہ کوئی تفسیر ان کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ علماء کے نزدیک یہ تفسیر، حدیث کے طالب علموں کیلئے اسانید و متون کی معرفت اور نقد و جرح میں بہت معاون ہے۔ اس لحاظ سے ایک عظیم علمی کتاب ہے اور اس کے بہت فوائد ہیں۔ (۶۳)
انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کا ”تفسیر ابن کثیر“ کے بارے میں یہ بیان ہے:
”ابن کثیر کی تفسیر بنیادی لحاظ سے فقہ اللغتہ کی کتاب ہے اور یہ اپنے اسلوب کے لحاظ سے اولین کتب میں شمار ہوتی ہے۔ بعد میں سیوطی نے جو کام کیا، اس پر اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔" (۶۴)
خلاصہ کلام یہ کہ ابن کثیر ان تمام علوم وشرائط پر حاوی نظرآتے ہیں جن کا جاننا ایک مفسر کیلئے ضروری ہے۔ انہوں نے تحقیق اور دقت نظری سے ”تفسیر قرآن“ کو مرتب کیا ہے جو قیمتی معلومات کا گنجینہ اور نہایت گراں بہا تفسیری ورثہ ہے۔ اگرچہ ابن کثیر کے توسع کی بناء پر اس کتاب میں بعض مقامات پر اعلیٰ اور بلند محدثانہ معیار خاطر خواہ قائم نہیں رہ سکا ہے، تاہم اہل نظر کو اعتراف ہے کہ محدثانہ نقطہ نظر سے یہ سب سے زیادہ قابل اعتماد تفسیر ہے۔ کتب تفسیر بالماثور میں اس کو امتیازی مقام حاصل ہے اور متاخرین نے ایک بنیادی مصدر کی حیثیت سے اس سے خوب استفادہ کیا ہے۔ جو شخص قرآن حکیم کے مطالب و معانی اور اسرار ورموز سے آگاہ ہونا چاہتا ہے وہ تفسیر ابن کثیر سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
مصادر و حواشی:
۱۔ الداؤی شمس الدین محمد
Similar topics
» البدایۃ وانہایۃ ،تاریخ ابن کثیر
» تاریخ تفسیر ومفسرین
» تفسیر تفہیم القرآن عربی: سید ابوالاعلیٰ مودودی
» تاریخ تفسیر ومفسرین
» تفسیر تفہیم القرآن عربی: سید ابوالاعلیٰ مودودی
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Sun Aug 12, 2012 9:26 pm by عبدالحئ عابد
» Research Papers Thesis مقالات ایم اے،پی ایچ ڈی
Sun Aug 12, 2012 8:05 pm by عبدالحئ عابد
» تاریخ تفسیر ومفسرین
Wed Jul 11, 2012 4:54 pm by عبدالحئ عابد
» تفسیر تفہیم القرآن عربی: سید ابوالاعلیٰ مودودی
Fri Jun 15, 2012 4:20 pm by عبدالحئ عابد
» علم حدیث میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کی خدمات
Fri Jun 15, 2012 4:15 pm by عبدالحئ عابد
» حرمت سود: ابوالاعلیٰ مودودی
Fri Jun 15, 2012 4:12 pm by عبدالحئ عابد
» اگر اب بھی نہ جاگے تو: ازشمس نوید عثمانی
Sat May 14, 2011 4:48 am by عبدالحئ عابد
» کالکی اوتار اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم
Sat Apr 09, 2011 9:29 pm by عبدالحئ عابد
» نراشنس اور آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم
Sat Apr 09, 2011 9:24 pm by عبدالحئ عابد