Search
Latest topics
فواتح و خواتم سورالقرآن ایک تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ
Page 1 of 1
فواتح و خواتم سورالقرآن ایک تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ
فواتح و خواتم سورالقرآن ایک تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ
مقالہ نگار:ڈاکٹر محمدعبداللہ
قرآن حکیم کے اسلوب کاہرپہلو ایک معجزہ ہے جملوں کی برجستگی، ترکیب کی چستی،عالمانہ انداز بیان،کوثر و تسنیم میں ملے ہوئے جملے،موقع و محل کے مطابق زور بیان،سیاق وسباق کے مناسب صفات الہیہ ان میں سے ہر ایک ایسی چیز تھی جس نے اہل زبان عربوں کو مبھوت وششدر کر دیایہاں تک کہ اہل عرب جنہیں اپنی زبان دانی پر ناز تھاقرآن حکیم کے اعجاز و اسلوب کے مقابلے میں اپنے آپ کو عاجز وبے بس خیال کرنے لگے۔ بلغاء وفصحاء کو اعتراف کرنا پڑا کہ اسلوب قرآنی زبان وبیان کی وہ جنس گراں ہے جس تک ان کی پرواز نہیں اور نہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے محسوس کیاکہ نظم و اسلوب خود اس کی فطرت لسانی کی روح اور جان ہے اورکسی عرب کے دل و دماغ کو اس بیان سے متاثر ہونے سے نہیں بچایا جاسکتا اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کتاب عظیم، اس اعجاز کی طرف اشارہ ہے جو قیامت تک کے تمام انسانوں کو شامل ہے۔
”وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمّٰانَزَّلْنٰا عَلٰی عَبْدِنٰا فَأتُو بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِہِ وَادْعُوا شُھَدَآءَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَالَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ“
(سورہ بنی اسرائیل:۲۴،۲۳)
اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آو اور اللہ کے سوا اپنے سب حمایتیوں کو بلا لو اگر تم سچے ہو پھر اگر نہ لا سکو تم ہرگز نہ لا سکو گے تو ڈر و اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جوتیار کر رکھی گئی ہے۔ کافروں کے لیے۔
قرآن حکیم کا نظم ربط بھی اس کے وجوہ اعجاز میں ایک ہے عربوں کے جملہ اصناف کلام میں سے کسی میں بھی یہ نظم وترتیب موجود نہیں۔ قرآن کریم کے زور بیان اور ندرت کا راز اسی میں مضمر ہے، اس نظم وربط کاایک نمایاں پہلو اس کی سورتوں فواتح وخواتم ہیںجن کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ بجائے خود ایک دلچسپی کا موضوع ہے اور اس سے قرآن حکیم کے اعجاز کے بعض پہلووں کا انکشاف بھی ہوتا ہے۔
فواتح السور القرآن کا مفہوم:
فواتح فاتحہ کی جمع ہے اس کا سہ حرفی مادہ ف،ت،ح،ہے جس کے لفظی معنی کھولنے اور کسی بھی چیز کی ابتداء کے ہیںابن منظور لکھتے ہیں۔
”فتح الاغلاق الفتح نقیض الاغلاق وفاتحة الشئی، اولہ فواتح القرآن اوائل السورہ(۲)
یہ لفظ قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر لغوی طور پر انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
جن فواتح کو زیر نظر مقالہ میں بطور اصطلاح استعمال کیاجائے گا اس سے مراد فواتح السور القرآن ہے جس کا مطلب قرآن حکیم کی سورتوں کا آغاز یاابتدائی حصہ ہے۔
علمائے مفسرین نے اس اصطلاح کو افتتاح السّور سے بھی تعبیر کیا ہے۔ (۳)
فواتح السور قرآن کی اہمیت:
ہمارا روزمرہ کامشاہدہ ہے کہ جس چیز پر پہلی نظر پڑتی ہے وہ اس چیز کا ظاہری یاابتدائی حصہ ہوتا ہے اور اسی سے انسان اس کے اچھے یا برے ہونے کا تاثر لیتاہےچنانچہ قرآن حکیم کی سورتوں پر پہلی نظرپڑتے ہی انسان اس کی فصاحت، بلاغت اور ربط و نظم سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتااس وجہ سے علمائے مفسرین نے فواتح السور القرآن کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا۔
اہل بیان کا قول ہے حسن الابتداء بلاغت کی جان ہے اور یہ اس چیز کا نام ہے کہ کلام کے آغاز میں خوبی عبارت اور پاکیزگی لفظ کا بہت بڑا خیال رکھا جائے کیونکہ جس وقت کوئی کلام کانوں میں پڑنا شروع ہوگا۔ اگر اس وقت عبارت کا چہرہ درست ہوا تو سننے والا بڑی توجہ سے وہ کلام سنے گا اور اسے اپنے ذہن میں محفوظ کرنے کی کوشش کرے گا ورنہ عبارت کا چہرہ خراب ہونے کی صورت میں باقی کلام خواہ کتنا ہی پاکیزہ ہو سامع کو ابتداء کے بھونڈے الفاظ سن کر کچھ ایسی نفرت ہو گی کہ وہ کبھی اس کو سننا گوارا نہ کرے گااسی وجہ سے یہ ضروری بات ہے کہ آغاز کلام میں بہتر سے بہتر،شیریں سلیس،خوش نما اور معنی کے اعتبار سے صحیح تر اور واضح، تقدیم و تاخیر اور تعقید سے خالی التباس اور عدم مناسبت سے بری لفظ لایا جائے اور کلام مجید کی سورتوں کے فواتح بہترین وجوہ، نہایت بلیغ اور کامل ہو کر آتے ہیں مثلاً تحمیدات، حروف تہجی اورنداء وغیرہ
فواتح السورالقرآن کی اقسام:
قرآن حکیم کی سورتوں کا آغاز کسی ایک طرزیا نوعیت سے نہیں ہوتا بلکہ مختلف انداز واقسام سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ابتداء میں ایسے الفاظ اور موضوع کو لایا جاتاہے جو سورہ میں زیادہ تر مقصود بیان اور ملحوظ ہوچنانچہ علمائے مفسرین نے فواتح السور القرآن پر سیر حاصل بحث کی ہے جس کے نتیجے میں ان کی تحقیق و تالیف قابل ذکر ہیں علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:
”ابن ابی الاصبع نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب تالیف کی ہے اور اس کانام الخواطر السوانح فی اسرار الفواتح رکھا ہے اور میں اس نوع (فواتح السور القرآن) میں اس کتاب کا ملخص کچھ زائد باتوں کے ساتھ جو مختلف کتابوں سے لی گئی ہیںدرج کرتا ہوں۔ (۵)
تلاش وتحقیق سے مجموعی طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی سورتوں کا افتتاح دس انواع کے ساتھ فرمایاہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔
۱ قرآن حکیم کی کئی سورتوں کاآغاز اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء سے ہوا ہے اور حمد و ثناء کی دو اقسام ہیں۔
اولاً اللہ تعالیٰ کے لیے صفات مدح کا اثبات
ثانیا صفات نقص کی ذات باری تعالی سے نفی اور ایسی صفتوں سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ چنانچہ پہلی قبیل میں پانچ سورتوں کاآغاز تحمید سے کیاگیاہے۔ وہ یہ ہیں:
سورةالفاتحہ: الحمد للہ رب العٰلمین۔ (۶)
سورةالانعام: الحمدللہ الذی خلق السموات والارض۔ (۷)
سورةالکہف : الحمد للہ الذی انزل علی عبدہ الْکِتٰبُ۔ (۸)
سورةسبا: الحمدللہ الذی لہ مافی السموات وما فی الارض۔ (۹)
سورةفاطر: الحمد للہ فاطر السموات والارض۔ (۱۰)
جبکہ دوسورتوں میں تبارک کے عنوان سے جس میں ذات باری تعالیٰ کے لئے اثبات حمدی ہے ابتداء فرمایا:
سورةالفرقان: تَبٰرَکَ الذی نَزَّلَ الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیراً۔ (۱۱)
سورةالملک: تَبَرَکَ الذی بیدہ الملک وھو علی کل شیٴٍ قدیر۔ (۱۲)
۲ قرآن کریم کی سات سورتوں کی ابتداء تسبیح کے صیغے کے ساتھ ہوئی ہے۔ الکرمانی ”متشابہ القرآن“ کے بیان میں لکھتے ہیں کہ تسبیح ایک ایسا کلمہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کثرت سے استعمال فرمایا ہے چنانچہ ان سورتوں کا آغاز اس کلمہ کے ساتھ ہوا ہے۔
سورةبنی اسرائیل: سبحان الذی اسری بعیدہ۔ (۱۳)
سورةالحدید: سَبَّح لِلّٰہِ مافی السموات والَارْض۔ (۱۴)
سورةالحشر: سَبَّح لِلّٰہِ مافی السَّموات والَارْض۔ (۱۵)
سورةاَلصَّفْ: سَبَّح لِلّٰہِ مٰافی السَّمٰواتِ وَمٰا فِی الْاَرْضِ۔
سورةالجمعة: یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مافی السموات والَارْض۔ (۱۶)
سورةالتغابن: یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مافی السَّموات ومافی الاَرْض۔ (۱۷)
سورةالاعلیٰ: سَبِّح اِسْمِ بک الاَعْلیٰ۔ (۱۸)
مذکورہ بالا سورتوں میں سے پہلی میں مصد ر دوسری اور تیسری میں ماضی،چوتھی، پانچویں سورت مضارع اور چھٹی سورة میں امر کا صیغہ استعمال کر کے اس کلمہ کا اس کی ہر جہت سے استعیاب کر لیا گیاہے۔ (۱۹)
۲۔ حروف تہجی یا حروف مقطعات:
حروف تہجی سے قرآن حکیم کی انتیس(۲۹)سورتوں کا آغاز فرمایا ہے جنہیں حروف مقطعات بھی کہتے ہیں ان کو سورتوں کا نقطہ آغاز یافو اتح السوُّر کہا جاتا ہے سورتوں کے یہ فواتح پانچ اقسام پر آتے ہیںجو درج ذیل ہیں۔
۱۔ بسیط مقطعات:
یہ حروف کی وہ قسم ہے جو صر ف ایک حرف پر مشتمل ہے اور یہ تین سورتیں ہیں۔
سورةص: ص والقرآن ذی الذکر۔ (۲۰)
سورةق: ق والقرآن المجید۔ (۲۱)
سورةالقلم: ن والقلم ومایسطرون۔ (۲۱)
۲ دو حروف سے مرکب مقطعات:
ایسے مقطعات قرآن حکیم کی دس سورتوں کے آغاز میں آئے ہیں جو یہ ہیں۔
سورةطٰہٰ: طہ o مانزلنا علیک القرآن لتشقی(۲۲)
سورةالنمل: طسo تلک آیت القرآن وکتاب مبین(۲۳)
سورہ یس: یس o والقرآن الحکیم(۲۴)
سورةمومن: حم o تنزیل الکتاب من اللہ العزیز الحکیم(۲۵)
سورةحم السجدة: حم o تنزیل من الرحمن الرحیم(۲۶)
سورةالزخرف: حم o والکتب المبین(۲۸)
سورةالدخان: حم o والکتب المبین(۲۹)
سورةالجاثیہ: حم o تنزیل الکتب من اللہ العزیز الحکیم(۳۰)
سورةالاحقاف: حم o تنزیل الکتب من اللہ العزیز الحکیم(۳۱)
۳ تین حروف سے مرکب مقطعات:
اس نوع میں قرآن حکیم کی تیرہ سورتیں آتی ہیں۔
سورةالبقرة: الم o ذالک الکتاب لاریب فیہ(۳۲)
سورةال عمران: الم o اللہ لاالہ الاھوالحی القیوم(۳۴)
سوریونس: الرا oتلک آیٰت الکتب الحکیم(۳۴)
سورہھود: الر oکتٰبٌ اُحْکمت اٰیٰتةُ (۳۵)
سورةیوسف: الر oتلک ایت الکتب المبین(۳۶)
سورةابراہیم: الرoکتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ(۳۷)
سورةالشعراء: طسم o ہ تلک ایت الکتب المبین(۳۸)
سورةالقصص: طسمo تلک ایت الکتب المبین(۳۹)
سورةالحجر: الرo تلک ایت الکتب و قرآن مبین(۳۷ا)
سورةالعنکبوت: المo احسب الناس ان یترکوا(۴۰)
سورةالروم: الم o غلبت الروم(۴۱)
سورةلقمن: الم o تلک ایت الکتب الحکیم(۴۲)
سورةالسجدة : الم oتنزیل الکتب لا ریب فیہ من رب العلمین (۴۳)
۴ چار حروف سے مرکب مقطعات:
قرآن کریم کی دو سورتیں چار حروف سے مرکب مقطعات سے شروع ہوئی ہیں۔
سورةالاعراف: المص o کتٰب انزل الیک(۴۴)
سورةالرعد: المرo تلک ایت الکتب(۴۵)
۵ پانچ حروف سے مرکب مقطعات:
صرف دو سورت کا آغاز پانچ حروف پر مشتمل مقطعات سے ہوتا ہے۔
سورةمریم: کھیعص ہ ذکر رحمت ربک عبدہ ذکریا(۴۶)
سورةالشوری: حم o عسق کذالک یو حی الیک (۲۷)
حروف مقطعات کی حکمت:
مفسرین حروف مقطعات کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان حروف کے ذکر سے یہ فائدہ مقصود ہے کہ یہ قرآن، حروف تہجی یعنی ا،ب،ج، د ہی سے مرکب اور مرتب ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ قرآن مجید کاکچھ حصہ مقطع (جدا جدا)حروف میں آیا ہے اور باقی تمام مرکب الفاظ ہیں غرض یہ تھی کہ جن لوگوں کی زبان میں قرآن حکیم کانزول ہوا ہے وہ معلوم کرلیں کہ قرآن انہی کی زبان میں ہے اور انہی حروف میں نازل ہوا ہے جن کو وہ جانتے اور اپنے کلام میں برتتے ہیں اور یہ بات ان لوگوں کے قائل کرنے اور ان کے قرآن حکیم کے مثل لانے سے عاجز ہونے کا ثبوت دینے کے لیے ایک زبردست دلیل ہے کیونکہ اہل عرب باوجود یہ معلوم کرلینے کے کہ قرآن حکیم انہی کی زبان میں اترا اور انہی حروف تہجی کے ساتھ نازل ہوا جس سے وہ اپنے کلام کو بناتے ہیںپھر بھی قرآن کی اس تحدی (چیلنج) کو قبول کرنے سے عاجز رہے کہ اس کے مثل کوئی سورہ یا کم از کم ایک آیت ہی پیش کر سکیں۔ (۴۷)
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی مقطعات کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں” حروف مقطعات کے سلسلے میں سب سے پہلے یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ان کی حیثیت ان سورتوں کے نام یاعنوان کی سی ہے جس سورة سے اس کا تعلق ہوتا ہے چنانچہ جو باتیں سورة میں تفصیلی طور پرموجودہوتی ہیں وہ اجمالی طور پر حروف مقطعات میں بھی مضمر ہوتی ہیںمثلاً جب کوئی کتاب لکھی جاتی ہے تو اس کا ایک نام رکھا جاتا ہے لیکن نام رکھنے میں ہمیشہ کتاب کے مضمون کی مناسبت کا خیال رکھا جاتا ہے اور ایک ایسانام تجویز کیاجاتا ہے جس کے سنتے ہی کتاب کی حقیقت اور اس کا مفہوم سننے والے کے ذہن میں آ جائے مثلاً امام بخارینے اپنی حدیث کا نام”الجامع الصحیح المسند فی احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکھا ہے اس نام کے سنتے ہی یہ علم ہو جاتا ہے کہ اس کتاب میں آنحضرت کی احادیث صحیحہ کو جمع کیاگیاہے۔ (۴۸)
حضرت شاہ ولی اللہ کی بحث سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ سورتوں کے آغاز میں آنے والے حروف تہجی دراصل اس سورة میں مذکورہ مضامین کی مناسبت سے آتے ہیں۔
۳ نداء:
قرآن حکیم کی دس سورتوں کاافتتاح حروف نداء سے کیا گیا ہے جن میں پانچ حضور کوندأ سے شروع کیا گیاہے وہ یہ ہیں۔
سورةالاحزاب: یاایھا النبی اتق اللہ(۴۹)
سورة۔ الطلاق: یاایھا النبی اذطلقتم النساء(۵۰)
سورةالتحریم: یاایھا النبی لما تحرم(۵۱)
سورةالمزمل: یاایھا المزمل(۵۲)
سورةالمدثر: یاایھا المدثر(۵۳)
پانچ سورتوں میں امت کو بذریعہ نداء مخاطب کیاگیاہے۔
سورةالنساء: یاایھا الناس اتقوا ربکم(۵۴)
سورةالمائدة: یاایھا الناس امنوا اوفوا بالعقود(۵۵)
سورةالحج: یاایھا الناس اتقوا ربکم(۵۶)
سورةالحجرات: یاایھا الذین امنوا لاتقدموا(۵۷)
سورةالممتحنہ: یاایھا الذین آمنوا لاتتخدوا(۵۸)
۴۔ جملہ خبریہ:
قرآن حکیم کی تیس سورتوں کوجملہ خبر یہ سے شروع کیا گیا ہے۔
سورةالانفال: یسئلونک عن الانفال(۵۹)
سورةالتوبة: برآة من اللہ ورسولہ(۶۰)
سورةالنحل: اتی امر اللہ فلا تستعجلوہ(۶۱)
سورةالانبیاء: اقترب للناس حسابھم(۶۲)
سورةالمومنون: قدافلح المومنون(۶۳)
سورةالنور: سورة انزلنھا وفرضناھا(۶۴)
سورةالزمر: تنزیل الکتب من اللہ العزیز الحکیم(۶۵)
سورةمحمد: الذین کفروا وصدوا(۶۶)
سورةالفتح: انا فتحنا لک فتحاً مبینا (۶۷)
سورةالقمر: اقتربتِ الساعة وانشق القمر(۶۸)
سورةالرحمن: الرحمن o علّم القرآن(۶۹)
سورةالمجادلة: قدسمع اللہ قول التی(۷۰)
سورةالحاقة: الحاقة o ماالحاقة(۷۱)
سورةالمعارج: سال سائل بعذاب واقع(۷۲)
سورةنوح: انا ارسلنا نوحاً الی قومہ(۷۳)
سورةالقیامة: لااقسم بیوم القیامة(۷۴)
سورةعبس: عبس و تولی(۷۵)
سورةالبلد: لااقسم بھذالبلد(۷۶)
سورةالقدر: انا انزلناہُ فی لیلةالقدر(۷۷)
سورةالبینة: لم یکن الذین کفروا(۷۸)
سورةالقارعة: القارعة مالقارعة(۷۹)
سورةالتکاثر: الھکم التکاثر(۸۰)
سورةالکوثر: انا اعطینک الکوثر(۸۱)
قسم:
قرآن حکیم کی پندرہ سورتوں کا آغاز قسم سے کیا گیا ہے ہر ایک کی تفصیل یہ ہے۔
سورةالصفٰت: والصفٰت صفاً(۸۲)اس میں ملائکہ کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالبروج: والسَّماء ذات البروج(۸۳)اس میں آسمانوں کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالطارق: والسَّماء والطارق(۸۴) اس میں بھی آسمانوں کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالنجم: والنَّجم اذاھَویٰ(۸۵)اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالفجر: والفَجْر ولََیال عشر(۸۶)اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالشمس: والشِّمْسِ وَالضُّحٰھا(۸۷)اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالیل: والَّیل اِذٰا یَغْشی(۸۸)اس میں لواز م افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالضحی : والضحی وَالَّیل اذا سجی(۸۹)اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالعصر : والعصران الانسان لفی خسر (۹۰)اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالذاریات: والذرایات ذرواً(۹۱)اس میں ہوا کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالمرسلات: والمرسلات عرفاً(۹۲)اس میں ہوا کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالطور: والطور وکتب مسطور(۹۳)اس میں پہاڑ اور کتاب کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالتین: والتین والزیتون(۹۴)اس میں نبات کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالنازعات: والنازعات غرفاً(۹۵)اس میں حیوان ناطق کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالعادیات: والعادیات ضبحاً(۹۶)اس میں حیوان ناطق کی قسم کھائی گئی ہے۔
قران حکیم کے طرز خطاب میں ایک خصوصی اور نمایاں طرز یہ بھی ہے کہ اکثر مطالب و مضامین کو قسم کے عنوان سے بیان کیاجاتا ہے جو ان مضامین کی صداقت و حقانیت کی گویا دلیل و برہان ہوتی ہے اہل عرب کا یہ خصوصی ذوق تھا کہ جب کسی امر پر ان کو اصرار ہوتا اور اس کی حقانیت و صداقت کو مخاطب پر واضح کرنا چاہتے تو اس مقام پر قسم کا عنوان اختیار کرتے اور قرآن کریم چونکہ لغت عرب پر نازل ہوا اس لیے ان کے اس خصوصی ذوق کی رعایت بھی ایسے معجزانہ انداز کے ساتھ کلام اللہ میں رکھی گئی ہے کہ وہ اقسام قرآن کے لطائف پر حیرت زدہ ہوتے اور بجزاس اعتراف کے کو ئی چارہ کار نہ ہوتا کہ خدا کی قسم یہ کلام بشر نہیں ہے۔
حافظ ابن القیم اپنی کتاب ”البیان فی اقسام القرآن“ میں فرماتے ہیں تمام مضامین میں اس امر کی توضیح فرمائی کہ جہاں جس چیز کی قسم کھائی اس چیز کو وہاں بیان کردہ مضمون سے پوری مناسبت ہوتی ہے۔ (۹۷)
۶۔ شرط کلام:
سورتوں کی چھٹی نوع کلام شرط ہے اس سے سات سورتیں شروع ہوتی ہیں۔
سورةالواقعة: اذا وقعت الواقعة(۹۸)
سورةالمنافقون: اذاٰ جاءَ َک المنا فقون(۹۹)
سورةالتکویر: اذا الشَّمْس کُوِّرَتْ(۱۰۰)
۱۰۔ تعلیل کلام :
قرآن حکیم کی صرف ایک سورہ تعلیل کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔
سورةقریش: لِایلٰفِ قُرَیْشٍ(۱۱۶)
ابوشامہ نے ان دس انواع کو دو اشعار میں یوں بیان کر دیا ہے۔
اثنی علی نفسہ سبحانہ بثبو ت الحمد والسلب لما استفتح السورا
والا مروالشرط والتعلیل والقسم الد عاحروف التھجی استفھم الخیرا
فواتح السور القرآن کے بارے میں شاہ ولی اللہ کانقطہ نظر:
برصغیرمیں فہم قرآنی کے عظیم عالم شاہ ولی اللہ نے فواتح سور القرآن کے ضمن میں بڑی دلچسپ بحث کی ہے وہ لکھتے ہیں۔
” چونکہ قرآن مجید کی سورتوں کا اسلوب بالکل بادشاہوں کے فرمان جیسا تھا اس وجہ سے ان سورتوں کی ابتداء اور انتہاء میں بھی مکاتیب کا ہی انداز اختیار کیاگیاچنانچہ جس طرح بعض مکاتیب کی ابتداء غرض تحریر کی وضاحت سے کی جاتی ہے بعض مکاتیب ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا کوئی عنوان نہیں ہوتا بعض مکاتیب طویل ہوتے ہیں اور بعض مختصر، بالکل اس انداز سے اللہ تعالیٰ نے بھی بعض سورتوں کو حمدو ثناء سے شروع کیااور بعض کو غرض تحریر کی وضاحت سے مثلاًذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِلْمُتَّقِیْنَ۔ (۱۱۸) سورہ انزلنھا و فرضنا ھا“(۱۱۹)یہ اندازبالکل وہی ہے جیسا کہ عام تحریروں میں اختیار کیاجاتاہے مثلاًھذا ماصالح علیہ فلان و فلان، ھذا ما اوصی بہ فلان“یعنی وہ تحریر ہے جس پر فلاں فلاں نے اتفاق کیا ہے یہ وہ تحریر ہے جس کی فلاں آدمی نے وصیت کی ہے۔
آنحضرت نے صلح حدیبیہ پر جوعہد نامہ تحریر فرمایا تھااس کی ابتداء بھی اس طرح ہوئی تھیہذا ماقاضیٰ علیہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم(یہ وہ عہد نامہ ہے جسے آنحضرت نے منظور فرمایاہے )
بعض آیات کی ابتداء اس انداز سے ہوتی ہے جس انداز کے وہ نامے ہوتے ہیں جن کی ابتداء کاتب اور مکتوب کے نام سے کی جاتی ہے مثلاً
تنزیل الکتاب من اللہ العزیز الحکیم(۱۲۰)
کتٰبٌ اْحْکِمَتْ آیٰاتْہ ثُمَّ فُصِّلتْ مِنْ لَدُنْ حکیمٍ خبیرٍ(۱۲۱)
ان آیات کے آغاز کاانداز ان تحریروں سے مشابہت رکھتا ہے جو اس انداز سے شروع کی جاتی ہیں جسیے حضرت خلافت کا حکم صادر ہوا۔ جب آنحضرت نے ہر قل شاہ روم کے پاس نامہ بھیجا تھا اس کی ابتداء یوں ہوئی تھی۔
من محمد رسول اللہ ھر قل عظیم الروم
اللہ کے رسول محمدکی طرف سے شاہ روم ہر قل کے نام
بعض سورتیں مختصر واقعات اور تحریروں کے اندازپربغیر کسی عنوان کے بھی نازل ہوئی ہیں۔
اذا جاء ک الفافقون(۱۲۲)
قدسمع اللہ قول التی تجادلک فی زوجھا(۱۲۲)
یایھا البنی لم تحرم(۱۲۴)
اسی طرح اہل عرب کا فصیح ترین کلام قصائد کی شکل میں ہے قصائد میں اصل مقصد سے پہلے تمہید کے طور پر تشبیب لکھی جاتی ہے اور تشبیب میں عجیب و غریب مقامات اورحیرت انگیز اور ہولناک واقعات کاذکر کرنا ان کی بہت پرانی روایت ہے قرآن مجید کی بعض سورتوں میں یہ اسلوب بھی اختیار کیاگیاہے مثلاً
والصفٰت صفاً فالزاجرات زجرًا(۱۲۵)
والذاریت زروًافا لحاملات وقراً(۱۲۶)
اذالشمس کورت واذا النُّجُوم انکَدَرَتْ(۱۲۷)
شاہ ولی اللہ کی مذکورہ بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سورتوں کاآغاز فرمان کی مناسبت سے ہے اور یہ عرب کے اس اسلوب کے عین مطابق ہے جسے وہ اپنی تحریر میں استعمال کرتے تھے۔ (۱۲۷)
کسی چیز کا ظاہری حسن ہی اس کی عمدہ خوبی کا پتہ دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم کے فواتح بھی اپنی خوبی اور حسن میں بے مثال ہیں اور یہی اس کے اعجاز کی ایک لطیف سی دلیل ہے جب ہم قرآن حکیم کی سورتوں کے فواتح کا جائزہ لیتے ہیں تو عمدہ کلام کی تمام خوبیاں اس میں موجود پاتے ہیںچنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی فواتح السور کے عمدہ اور جامع ہونے پر یوں بحث کرتے ہیں۔
” کلام کے عمدہ ابتداء کی ایک خاص ترین نوع، نوعة الاستہلال نامی بھی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آغاز کلام اس چیز پر شامل ہو جو کہ متکلم فیہ کے مناسب حال ہے اور اس میں باعث سیاق کلام کا اشارہ موجود ہو۔"(۱۲۸)
چنانچہ اس بارے میں سب سے اعلیٰ اور احسن نمونہ سورة الفاتحہ ہے جو کہ قرآن کریم کا مطلع اور اس کے تمام مقاصد پر مشتمل ہے اس کی تفصیل یوں ہے ” خداوند کریم نے ایک سو چار کتابیں نازل فرمائیں اور ان سب کے علوم چار کتابوں توریت، زبور،انجیل اور قرآن میں ودیعت رکھ دئیےپھر توریت، زبور،اور انجیل کے علوم قرآن میں ودیعت رکھے اور علوم القرآن کو اس حصہ میں مفصل رکھا اور مفصل کے جملہ علوم صرف سورہ فاتحہ میں ودیعت فرما دئیے لہذا جو شخص سورہ فاتحہ کی تفسیر معلوم کرے گا وہ گویاتمام کتب منزلہ کی تفسیر سے واقف ہو جائے گا۔ (۱۲۹)
خواتم سور القرآن:
خواتم کاسہ حرفی مادہ خ،ت،م ہے یہ ثلاثی مجرد سے باب ”ضَرَبَ“ آتا ہے ختم ختماً وختاماً الخاتمبمعنی ہر چیز کا اختتام، خواتم وجمع ہے(۱۳۰) جبکہ ابن منظورلکھتے ہیں۔
خَتَمَ یَخْتَمُ ختماًو ختاماًالاخیر عن الحیاتی والجمع خواتم وخواتیم ویقال ختم فلان القرآن اذا قرء ہ الی اخرہ و خاتم کلی شئیوخاتمہ، عاقبة،واخرہ(۱۳۱)
مذکورہ بحث میں خواتم السور سے مراد سورتوں کا آخری حصہ یااختتام ہے بعض مفسرین اس اصطلاح کو مقاطع السوریامنتہائے سور کے نام سے بھی تعبیر کرتے ہیں اس مفہوم کی تائید مندرجہ ذیل احادیث سے بھی ہوتی ہے
من حفظ من خواتیم سورة الکھف(۱۳۲)
اعطی خواتیم سورةالبقرة(۱۳۳)
قال خاتمة سورة البقرة فانھا(۱۳۴)
کسی کلام کاآخری حصہ اپنی اہمیت کے اعتبار سے کسی طرح سے بھی پہلے حصے سے کم نہیں ہوتا دراصل یہ وہ آخری کلمات ہوتے ہیں جو انسانی ذہن پر گہرا اثر ڈالتے ہیں قرآن حکیم کی سورتوں کا خاتمہ بھی اپنے حسن اورفصاحت و بلاغت کے لحاظ سے کسی اعجاز سے کم نہیںاگر بنظر غائر خواتم السور کا مطالعہ کیا جائے تو سابقہ مضمون کا خلاصہ جامع انداز سے سامنے آتا ہے یہی وجہ ہے علماء مفسرین نے خواتم السور القرآن کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے جلال الدین سیوطی رقم طراز ہیں۔
”یہ بھی فواتح ہی کی طرح حسن وخوبی میں طاق ہیں اس لیے کہ یہ کلام کے وہ مقامات ہیں جو آخر میں گوش زد ہوا کرتے ہیں اور اسی باعث سے یہ سامع کو انتہائے کلام کا علم حاصل کرانے کے ساتھ معانی بدیعہ کے بھی متضمن ہو کر آتے ہیں یہاں تک کہ ان کے سننے سے پھر سے نفس کے بعد میں ذکر کی جانے والی بات کا کوئی شوق باقی نہیں رہتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سورتوں کادعاوں، نصیحتوں،فرائض،تمہید،تہلیل،مواعظ،وعد،وعید اور جامع صفات الہیہ پر ہوا ہے۔ (۱۳۵)
مقصود اس اقتباس سے یہ ہے کہ قرآن حکیم کی سورتوں کاخاتمہ اتنے عمدہ کلام پر ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر عمدگی اور حسن کاتصور نہیں کیاجاسکتااس کی حکمت یہ ہے کہ یہ ماسبق کلام کا خلاصہ ہوتے ہیں اور پورے موضوع کو سمیٹ رہے ہوتے ہیں تاکہ انسان تشنگی محسوس نہ کرے اور نہ ہی سوچ سکے کہ اس سے بہتر خاتمہ لایاجاسکتا تھا۔
خواتم السورپر شاہ ولی اللہ کی بحث:
شاہ ولی اللہ کے نزدیک قرآن حکیم کی سورتوں کی مثال شاہی فرمان کی طرح ہے یہی وجہ ہے سورتوں کی ابتداء و انتہاء میں مکاتب کے طریقہ کی رعایت رکھی گئی ہے چنانچہ رقم طرازہیں۔
”جس طرح مکتوبات کو کلمات جامع، وصایائے نادرہ اور احکامات سابقہ کے لیے تائیدات اور اس کی مخالفت کرنے والے کے لئے تہد یدات پر تمام کرتے ہیں ایسے ہی خداوند تعالیٰ نے سورتوں کے آخری حصہ کوکلمات جامع اور حکمت کے سرچشموں سے تائیدات بلیغہ اور تہدیدات عظیمہ پر ختم فرمایا نیز جس طرح بعض مکاتیب کا اختتام کبھی جامع کلمات پر کیا جاتا ہے اور کبھی اچھی اچھی وصیتوں اور نصیحتوں پر، اسی انداز پر کلام مجید میں بھی مختلف سورتوں کو کبھی جوامع کلم اور کبھی احکام کے لواحق پر اور کبھی انتہائی سخت قسم کی تاکید پر تمام کی جاتی ہے۔"(۱۳۶)
شاہ ولی اللہ کے اسی نقطہ نظر کے پیش نظر سورة البقرة کا خاتمہ نہایت عمدہ دعاوں اور جامع کلمات پر ہوا ہے جو حسن خاتمہ کی ایک دلیل ہے اسی طرح وصایا( لضائح اور ہدایات) کی عمدہ نظیر سورة آل عمران ہے۔
یاایھا الذین امنو اصبروا وصابرواوارابطوا واتقواللہ لعلکم تفلحون(۱۳۷)
سورة النساء کا خاتمہ فواتح کی طرح احکام کی تاکید اور صفات الہیہ پر ہوا ہے اسی طرح سورة یوسف کے خاتمے میں قرآن حکیم کی جامع صفات اور اس میں مذکور واقعہ کی حکمت و موعظمت بیان ہوئی ہیںفواتح وخواتم میں ربط کی چند مثالیں:
اگر سورة الانعام کے فاتحہ و خاتمہ پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اس میں صفات الہیہ کا اتباع کیاگیا ہے۔ آغاز اس آیت سے ہوتا ہے :
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّورَ ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرِبِِّھْم یَعْدِلُوْنَ“(۱۳۸)
سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور اندھیرا اوراجالا بنایا پھربھی یہ کافر اوروں کو اپنے رب کے ساتھ برابر ٹھہراتے ہیں۔
سورة الانعام کی مذکورہ ابتدائی آیت میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء تخلیق ارض و سماء اور نور ظلمات کا ذکرہے ساتھ ہی شرک کا ردبھی کر دیاگیاہے۔ جبکہ خاتمہ ان جملوں پر کیا گیا ہے۔
وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مآ اٰتٰکُمْ اَنَّ رَبَّکَ سَرِ یْعُ الْعِقٰابِ وَاِنَّہ لَغَفُورٌ رَّحِیْمٌ(۱۳۹)
اور وہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین پر اپنا نائب بنایا اور تم میں سے بعض کے بعض پر درجے بلند کردیئے تاکہ تمہیں اپنے دیئے ہوئے حکموں میں آزما لے بے شک تیرا رب جلدی عذاب دینے والا ہے اور بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اس آیت میں انسان کی زمین پر حیثیت، آزمائش،سرعت عذاب اور اسکی رحمت و مغفرت کا ذکر ہے۔ اگر مذکورہ سورة کے فاتح وخاتم پر غور کریں تو اس میں ایک خاص معنوی ربط نظر آئے گا مثلاً سورة کا آغاز تحمید سے کیاگیا اور خاتمہ مغفرت ورحمت پر ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتا ہے تو وہی مغفرت و رحمت کا سزاوار بھی ہوتا ہے اسی وجہ سے تحمید کو مقدم کیاگیا۔ پھر تخلیق ارض وسماء کا ذکر کرنے کے بعد ضرورت تھی کہ اس کارخانہ عالم کوکوئی چلائےتو اللہ تعالیٰ نے انسان ہی کو زمین میں اپنا نائب بنایاپھر جب نیابت سے نوازا تو اللہ تعالیٰ کی آزمائش کی اس گھڑی میں کافر لوگ ناکام ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے مطیع کامیاب جو لوگ اس کے بعد بھی خدا کو ماننے اور جاننے میں ہٹ دھرمی سے کام لے رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے سریع الحساب ہے اور جو صحیح حق خلافت کو اداکر رہے ہیں تو ان کے لیے غفور رحیم ہے۔
اثبات آخرت یا تذکر بما بعد الموت کی حامل سورة الواقعہ پر غور کریں اس میں بھی ایک ربط نظر آتا ہے جس کا آغاز یوں ہوتاہے۔
اذا وقعت الواقعة o لیس لوقعتھا کاذبہ(۱۴۰)
جب ہوجائے گی ہونے والی اس وقت اس کے ہونے میں کسی کو انکار کی گنجائش نہ ہوگی۔
سورة کی ابتداء میں جس واقعہ کا ذکر ہے اس سے مراد قیامت ہےفرمایا کہ یہ امرشدنی ہے یہ آکر رہے گی اور تم کسی طرح بھی اس سے بھاگ نہ سکو گے نیز اگر تم اس وہم میں مبتلا ہو کہ تم کو جھوٹ موٹ ایک ہونے سے ڈرایا جارہا ہے تو اس میں جھوٹ کا ادنیٰ شائبہ بھی نہیں۔
سورة کی آخری آیت ہے:
”ان ھذا لھم الحق المبین o فسبح باسم ربک العظیم(۱۴۱)
بے شک یہ تحقیقی یقینی بات ہے پس اپنے رب کے نام کی تسبیح کر جو بڑاعظمت والا ہے۔
اس آیت میں بالواسطہ طور پر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہے اور تلقین اور استقامت ہے کہ جوباتیں اوپر بیان ہوئی ہیں سب یقینی حقائق ہیں ان میں کسی شبہ گنجائش نہیں ہے البتہ تمہاری قوم کے لوگ نہیں مان رہے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور اپنے رب عظیم کی تسبیح بیان کرومذکورہ سورة کے فاتحہ وخاتمہ سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں میں ربط موجود ہے شروع میں فرمایا کہ یہ ایک حقیقت ہے اور واقع ہونے والی ہے اس کے آنے میں تحلفہ نہیں ہو گاجبکہ آخرمیں فرمایا کہ یہ حق الیقین ہے اس میں بھی کسی شائبہ کی گنجائش نہیں دونوں میں اس واقعہ کے لازمی ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ جب قیامت امرشدنی ہے تو اپنے رب عظیم کی تسبیح پڑھو کہ وہ ظلم سے پاک ہے اس دن ہر شخض کو اس کے اعمال کے مطابق سزا دیتا ہے۔ (۱۴۳)
احکام کے سلسلے میں سورة العنکبوت ہے جس کے آغاز میں جہادکا حکم ہے :
الٓمٓo اَحَسِبَ النّٰاسُ اَنْ یُتْرَکُوا اَنْ یَّقُولُوْا اٰمَنَّا وَھُمْ لاّٰ یُفْتَنُون۔
المoکیالوگ خیال کرتے ہیں یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لائے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی۔
اس آیت میں واضح طور پر اس امر کی طر ف اشارہ ہے امت محمدیہ کی آزمائش جہاد سے ہو گی۔ آخری آیت میں ہے۔
والذین جاھدو افینا لنھد ینھم سبلنا وان اللہ لمع المحسنین (۱۴۴)
اور جنہوں نے ہمارے لئے کوشش کی ہم ضرور اپنی راہیں سمجھا دیں گے اور بے شک اللہ نیک کاروں کے ساتھ ہے۔
اس آیت میں واضح ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے کے لئے اجر کا اعلان ہے اورساتھ ہی یہ بشارت بھی کہ مجاہدین کو اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہو گیمذکورہ سورة میں جس مضمون سے سورة کا آغاز کیاتھا اس پر خاتمہ فرمایا شروع میں یہ واضح کیا گیا تھاکہ اہل ایمان کی آزمائش لازمی ہے اور ایماندار اس امتحان میں سرخرو ہوں گے تو ان کے دو اجر ہیں اول ان کے لیے دنیامیں راستے آسان ہو ں گے دوسرے آخرت میں معیت الہی نصیب ہو گی۔
فواتح و خواتم السور پر قلم اٹھانے والے علماء و مفسرین:
جن علماء ومفسرین نے فواتح و خواتم سورة القرآن کے ربط پر بطور خاص قلم اٹھایا ہے ان میں سر فہرست علامہ جلال الدین سیوطی ہیںجن کی اس موضوع پر تصنیف”مراصد المطالع فی تناسب المقاطع والمطالع“ کے نام سے ہےاسی طرح علامہ کرمانی کی کتاب العجائب بھی اس موضوع پر بہترین ہے برصغیر پاک وہند کے علماء میں شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب ”الفوز الکبیر“ میں ضمناً اس موضوع کا تذکرہ کیاہے البتہ مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب عربی زبان میں” سبق الغایات فی نسق الایات" اس موضوع پر عمد ہ ہے دیگر مفسرین میں جنہوں نے اپنی تفاسیر میں اس امر کا خاص اہتمام کیاہے۔ فخر الدین رازی،احمد مصطفی المرانی،عبدالحق حقانی صاحب ”فتح المنان“ اور مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ”بیان القرآن“ شامل ہیں۔
حوالہ جات
۱۔ البقرة۲:۲۳۲۴ ۲۔ ابن منظور، لسان العرب،دار صادر،بیروت ج۲،ص۵۲۷
۳۔ السیوطی جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن،مکتبہ المعارف الریاض،۱۹۹۶،ج۲،ص۳۹۳
۴۔ نفس مصدر ۵۔ نفس مصدر ۶۔ الفاتحة،۱،۱
۷۔ الانعام،۶،۱ ۸۔ الکھف،۱۸،۱ ۹۔ سبا،۳۴،۱
۱۰۔ فاطر،۳۵:۱ ۱۱۔ الفرقان،۲۵،۱ ۱۲۔ الملک،۷۷،۱
۱۳۔ بنی اسرائیل،۱۷،۱ ۱۴۔ الحدید،۵۷،۱ ۱۵۔ الحشر،۰۹،۱
۱۶۔ الجمعة،۶۲،۱ ۱۷۔ التغابن،۶۴،۱ ۱۸۔ الاعلیٰ،۸۷،۱
۱۹۔ الاتقان،حوالہ مذکور،ج۲،ص۲۹۲ ۲۰۔ ص،۳۸:۱ ۲۱۔ ق،۵:۱
۲۲۔ (ا)القلم ۲۳۔ طٰہٰ،۲۰،۱ ۲۴۔ النمل،۲۷،۱
۲۵۔ یٰس،۳۶:۱ ۲۶۔ مومن،۴۰:۱ ۲۷۔ حٰم السجدة،۴۱،۱
۲۸۔ ۴۲،۱ ۲۹۔ الزخرف،۴۳،۱ ۳۰۔ الدخان،۴۴،۱
۳۱۔ الجاثیہ،۴۵:۱ ۳۲۔ الاحقاف،۴۲:۱ ۳۳۔ البقرة:۲،۱
۳۴۔ آلِ عمران:۳،۱ ۳۵۔ یونس:۱۰،۱ ۳۶۔ ھود،۱۱:۱
۳۷۔ یوسف،۱۲،۱ ۳۸۔ ابراہیم،۱۴،۱ ۳۹۔ الحجر،۱۵،۱
۴۰۔ الشعراء:۲۶،۱ ۴۱۔ القصص:۲۸،۱ ۴۲۔ العنکبوت:۲۹،۱
۴۳۔ الروم:۳۰،۱ ۴۴۔ لقمٰن:۳۱،۱ ۴۵۔ السجدة:۳۲،۱
۴۶۔ الاعراف،۷،۱ ۴۷۔ الرعد،۱۳،۱ ۴۸۔ مریم،۱۹،۱
۴۹۔ الاتقان، حوالہ مذکور،ح۲،ص۲۹ ۵۰۔ شاہولی اللہ،الفوزالکبیرفی اصول التفسیر(مترجم)قرآن
۵۱۔ الاحزاب:۳۳،۱ محل، تاجران کتب،کراچی،۱۳۸۳ہ ص۱۶۶،۱۶۷
۵۲۔ الطلاق،۶۵،۱ ۵۳۔ التحریم،۷۶:۱ ۵۴۔ المزمل:۷۳،۱
۵۵۔ المدثر:۷۴،۱ ۵۶۔ المائدة:۵،۱ ۵۷۔ الحج:۲۲،۱
۵۸۔ الحجرات:۴۹،۱ ۵۹۔ الانفال:۸،۱ ۶۰۔ التوبہ:۹،۱
۶۱۔ الخل،۱۶،۱ ۶۲۔ الابنیاء،۲۱،۱ ۶۳۔ المومنون:۲۳،۱
۶۴۔ النور:۶۴،۱ ۶۵۔ الزمر:۳۹،۱ ۶۶۔ محمد:۴۷،۱
۶۷۔ الفتح:۴۸،۱ ۶۸۔ القمر:۵۴،۱ ۶۹۔ الرحمن:۵۵،۱
۷۰۔ المجادلہ:۶۹،۱ ۷۱۔ الحاقہ:۶۹،۱ ۷۲۔ المعارج:۷۰،۱
۷۳۔ نوح:۷۱،۱ ۷۴۔ القیمٰة:۷۵،۱ ۷۵۔ عبس:۸۰
۷۶۔ البلد:۹۰،۱ ۷۷۔ القدر:۹۷،۱ ۷۸۔ البینہ:۹۸،۱
۷۹۔ القارعة:۱۰۱،۱ ۸۰۔ التّکاثر:۱۰۲،۱ ۸۱۔ الکوثر:۱۰۸،۱
۸۲۔ صافات:۳۷،۱ ۸۳۔ البروج:۸۵،۱ ۸۴۔ الطارق:۲،۸۶،۱
۸۵۔ النجم،۵۳،۱ ۸۶۔ الفجر،۸۹،۱ ۸۷۔ الشمس:۹۱،۱
۸۸۔ اللیل:۹۶،۱ ۸۹۔ الضحیٰ:۹۳،۱ ۹۰۔ العصر۔ ۱۰۳،۱
۹۱۔ الذاریات:۵۱،۱ ۹۲۔ المرسلات:۷۷،۱ ۹۳۔ الطور:۵۲،۱
۹۴۔ التین:۹۵،۱ ۹۵۔ النازعات:۷۹،۱ ۹۶۔ العادیات:۱۰۱،۱
۹۷۔ الاتقان:حوالہ مذکورہ،ج۲،ص۳۷۳ ۹۸۔ الواقعہ،۵۶،۱ ۹۹۔ المنافقون:۶۳،۱
۱۰۰۔ التکویر،۱۸۱،۱ ۱۰۱۔ الانفطار:۸۶،۱ ۱۰۲۔ الزلزال:۹۹،۱
۱۰۳۔ الانشقاق:۸۴،۱ ۱۰۴۔ النصر:۱۱۰،۱ ۱۰۵۔ الجن:۷۳:۱
۱۰۶۔ العلق:۹۶،۱ ۱۰۷۔ الکفرون:۱۰۹،۱ ۱۰۸۔ الفلق:۱۱۳،۱
۱۰۹۔ الناس:۱۱۷،۱ ۱۱۰۔ الدھر:۷۶،۱ ۱۱۱۔ النباء:۷۸،۱
۱۱۲۔ الغاشیة:۸۸،۱ ۱۱۳۔ انشراح:۹۴،۱ ۱۱۴۔ الفیل:۱۰۵،۱
۱۱۵۔ الماعون:۱۰۷،۱ ۱۱۶۔ قریش:۱۰۶،۱ ۱۱۷۔ الاتقان،حوالہ
۱۱۸۔ البقرة:۲،۱ ۱۱۹۔ النور:۲۴،۱ مذکور،ج۲،ص۹۴
۱۲۰۔ مومن:۴۰،۱ ۱۲۱۔ ھود:۱۱،۱ ۱۲۲۔ المنافقون،۶۳
۱۲۳۔ المجادلہ:۵۸،۱ ۱۲۴۔ الطلاق:۶۵،۱ ۱۲۵۔ الصٰفّٰت:۲۷،۱،۲
۱۲۶۔ الذاریات:۱۵،۱،۲ ۱۲۷۔ دیکھیےالنور الکبیر،حوالہ مذکور ص۱۱۵،۱۱۶
۱۲۸۔ الاتقان:حوالہ مذکور،ج۲،ص۲۹۴ ۱۲۹۔ نفس مصدر ۱۳۰۔ المنجد،ص۶۵۸
۱۳۱۔ ابن منظور،لسان العرب،حوالہ مذکور،ج۱۲ص۶۴ ۱۳۲۔ ابو داود
۱۳۳۔ نسائی باب الصلوة،۲۵ ۱۳۴۔ دارمی،فضائل القرآن،ص،۱۴
۱۳۵۔ الاتقان فی علوم القرآن، حوالہ مذکورص ۱۳۶۔ الفوز الکبیر فی اصول
۱۳۷۔ آلِ عمران:۳،۲۰۰ ۱۳۸۔ الانعام:۶،۱ التفسیر،حوالہ مذکور،ص۱۱۴،۱۱۶
۱۳۹۔ الانعام۶،۲۶۵ ۱۴۰۔ الواقعہ:۵۶،۱،۲ ۱۴۱۔ الواقعہ:۵۶،۹۵،۵۶
۱۴۲۔ اصلاحی،امین احسن،تدبر قرآن،مرکز انجمن خدام القرآن لاہور،۱۹۷۳،ج۷،ص۱۸۸
۱۴۳۔ العنکبوت:۲۹،۱،۲ ۱۴۴۔ العنکبوت:۲۹،۹۶
مقالہ نگار:ڈاکٹر محمدعبداللہ
قرآن حکیم کے اسلوب کاہرپہلو ایک معجزہ ہے جملوں کی برجستگی، ترکیب کی چستی،عالمانہ انداز بیان،کوثر و تسنیم میں ملے ہوئے جملے،موقع و محل کے مطابق زور بیان،سیاق وسباق کے مناسب صفات الہیہ ان میں سے ہر ایک ایسی چیز تھی جس نے اہل زبان عربوں کو مبھوت وششدر کر دیایہاں تک کہ اہل عرب جنہیں اپنی زبان دانی پر ناز تھاقرآن حکیم کے اعجاز و اسلوب کے مقابلے میں اپنے آپ کو عاجز وبے بس خیال کرنے لگے۔ بلغاء وفصحاء کو اعتراف کرنا پڑا کہ اسلوب قرآنی زبان وبیان کی وہ جنس گراں ہے جس تک ان کی پرواز نہیں اور نہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے محسوس کیاکہ نظم و اسلوب خود اس کی فطرت لسانی کی روح اور جان ہے اورکسی عرب کے دل و دماغ کو اس بیان سے متاثر ہونے سے نہیں بچایا جاسکتا اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کتاب عظیم، اس اعجاز کی طرف اشارہ ہے جو قیامت تک کے تمام انسانوں کو شامل ہے۔
”وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمّٰانَزَّلْنٰا عَلٰی عَبْدِنٰا فَأتُو بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِہِ وَادْعُوا شُھَدَآءَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَالَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ“
(سورہ بنی اسرائیل:۲۴،۲۳)
اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آو اور اللہ کے سوا اپنے سب حمایتیوں کو بلا لو اگر تم سچے ہو پھر اگر نہ لا سکو تم ہرگز نہ لا سکو گے تو ڈر و اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جوتیار کر رکھی گئی ہے۔ کافروں کے لیے۔
قرآن حکیم کا نظم ربط بھی اس کے وجوہ اعجاز میں ایک ہے عربوں کے جملہ اصناف کلام میں سے کسی میں بھی یہ نظم وترتیب موجود نہیں۔ قرآن کریم کے زور بیان اور ندرت کا راز اسی میں مضمر ہے، اس نظم وربط کاایک نمایاں پہلو اس کی سورتوں فواتح وخواتم ہیںجن کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ بجائے خود ایک دلچسپی کا موضوع ہے اور اس سے قرآن حکیم کے اعجاز کے بعض پہلووں کا انکشاف بھی ہوتا ہے۔
فواتح السور القرآن کا مفہوم:
فواتح فاتحہ کی جمع ہے اس کا سہ حرفی مادہ ف،ت،ح،ہے جس کے لفظی معنی کھولنے اور کسی بھی چیز کی ابتداء کے ہیںابن منظور لکھتے ہیں۔
”فتح الاغلاق الفتح نقیض الاغلاق وفاتحة الشئی، اولہ فواتح القرآن اوائل السورہ(۲)
یہ لفظ قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر لغوی طور پر انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
جن فواتح کو زیر نظر مقالہ میں بطور اصطلاح استعمال کیاجائے گا اس سے مراد فواتح السور القرآن ہے جس کا مطلب قرآن حکیم کی سورتوں کا آغاز یاابتدائی حصہ ہے۔
علمائے مفسرین نے اس اصطلاح کو افتتاح السّور سے بھی تعبیر کیا ہے۔ (۳)
فواتح السور قرآن کی اہمیت:
ہمارا روزمرہ کامشاہدہ ہے کہ جس چیز پر پہلی نظر پڑتی ہے وہ اس چیز کا ظاہری یاابتدائی حصہ ہوتا ہے اور اسی سے انسان اس کے اچھے یا برے ہونے کا تاثر لیتاہےچنانچہ قرآن حکیم کی سورتوں پر پہلی نظرپڑتے ہی انسان اس کی فصاحت، بلاغت اور ربط و نظم سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتااس وجہ سے علمائے مفسرین نے فواتح السور القرآن کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا۔
اہل بیان کا قول ہے حسن الابتداء بلاغت کی جان ہے اور یہ اس چیز کا نام ہے کہ کلام کے آغاز میں خوبی عبارت اور پاکیزگی لفظ کا بہت بڑا خیال رکھا جائے کیونکہ جس وقت کوئی کلام کانوں میں پڑنا شروع ہوگا۔ اگر اس وقت عبارت کا چہرہ درست ہوا تو سننے والا بڑی توجہ سے وہ کلام سنے گا اور اسے اپنے ذہن میں محفوظ کرنے کی کوشش کرے گا ورنہ عبارت کا چہرہ خراب ہونے کی صورت میں باقی کلام خواہ کتنا ہی پاکیزہ ہو سامع کو ابتداء کے بھونڈے الفاظ سن کر کچھ ایسی نفرت ہو گی کہ وہ کبھی اس کو سننا گوارا نہ کرے گااسی وجہ سے یہ ضروری بات ہے کہ آغاز کلام میں بہتر سے بہتر،شیریں سلیس،خوش نما اور معنی کے اعتبار سے صحیح تر اور واضح، تقدیم و تاخیر اور تعقید سے خالی التباس اور عدم مناسبت سے بری لفظ لایا جائے اور کلام مجید کی سورتوں کے فواتح بہترین وجوہ، نہایت بلیغ اور کامل ہو کر آتے ہیں مثلاً تحمیدات، حروف تہجی اورنداء وغیرہ
فواتح السورالقرآن کی اقسام:
قرآن حکیم کی سورتوں کا آغاز کسی ایک طرزیا نوعیت سے نہیں ہوتا بلکہ مختلف انداز واقسام سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ابتداء میں ایسے الفاظ اور موضوع کو لایا جاتاہے جو سورہ میں زیادہ تر مقصود بیان اور ملحوظ ہوچنانچہ علمائے مفسرین نے فواتح السور القرآن پر سیر حاصل بحث کی ہے جس کے نتیجے میں ان کی تحقیق و تالیف قابل ذکر ہیں علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:
”ابن ابی الاصبع نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب تالیف کی ہے اور اس کانام الخواطر السوانح فی اسرار الفواتح رکھا ہے اور میں اس نوع (فواتح السور القرآن) میں اس کتاب کا ملخص کچھ زائد باتوں کے ساتھ جو مختلف کتابوں سے لی گئی ہیںدرج کرتا ہوں۔ (۵)
تلاش وتحقیق سے مجموعی طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی سورتوں کا افتتاح دس انواع کے ساتھ فرمایاہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔
۱ قرآن حکیم کی کئی سورتوں کاآغاز اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء سے ہوا ہے اور حمد و ثناء کی دو اقسام ہیں۔
اولاً اللہ تعالیٰ کے لیے صفات مدح کا اثبات
ثانیا صفات نقص کی ذات باری تعالی سے نفی اور ایسی صفتوں سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ چنانچہ پہلی قبیل میں پانچ سورتوں کاآغاز تحمید سے کیاگیاہے۔ وہ یہ ہیں:
سورةالفاتحہ: الحمد للہ رب العٰلمین۔ (۶)
سورةالانعام: الحمدللہ الذی خلق السموات والارض۔ (۷)
سورةالکہف : الحمد للہ الذی انزل علی عبدہ الْکِتٰبُ۔ (۸)
سورةسبا: الحمدللہ الذی لہ مافی السموات وما فی الارض۔ (۹)
سورةفاطر: الحمد للہ فاطر السموات والارض۔ (۱۰)
جبکہ دوسورتوں میں تبارک کے عنوان سے جس میں ذات باری تعالیٰ کے لئے اثبات حمدی ہے ابتداء فرمایا:
سورةالفرقان: تَبٰرَکَ الذی نَزَّلَ الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیراً۔ (۱۱)
سورةالملک: تَبَرَکَ الذی بیدہ الملک وھو علی کل شیٴٍ قدیر۔ (۱۲)
۲ قرآن کریم کی سات سورتوں کی ابتداء تسبیح کے صیغے کے ساتھ ہوئی ہے۔ الکرمانی ”متشابہ القرآن“ کے بیان میں لکھتے ہیں کہ تسبیح ایک ایسا کلمہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کثرت سے استعمال فرمایا ہے چنانچہ ان سورتوں کا آغاز اس کلمہ کے ساتھ ہوا ہے۔
سورةبنی اسرائیل: سبحان الذی اسری بعیدہ۔ (۱۳)
سورةالحدید: سَبَّح لِلّٰہِ مافی السموات والَارْض۔ (۱۴)
سورةالحشر: سَبَّح لِلّٰہِ مافی السَّموات والَارْض۔ (۱۵)
سورةاَلصَّفْ: سَبَّح لِلّٰہِ مٰافی السَّمٰواتِ وَمٰا فِی الْاَرْضِ۔
سورةالجمعة: یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مافی السموات والَارْض۔ (۱۶)
سورةالتغابن: یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مافی السَّموات ومافی الاَرْض۔ (۱۷)
سورةالاعلیٰ: سَبِّح اِسْمِ بک الاَعْلیٰ۔ (۱۸)
مذکورہ بالا سورتوں میں سے پہلی میں مصد ر دوسری اور تیسری میں ماضی،چوتھی، پانچویں سورت مضارع اور چھٹی سورة میں امر کا صیغہ استعمال کر کے اس کلمہ کا اس کی ہر جہت سے استعیاب کر لیا گیاہے۔ (۱۹)
۲۔ حروف تہجی یا حروف مقطعات:
حروف تہجی سے قرآن حکیم کی انتیس(۲۹)سورتوں کا آغاز فرمایا ہے جنہیں حروف مقطعات بھی کہتے ہیں ان کو سورتوں کا نقطہ آغاز یافو اتح السوُّر کہا جاتا ہے سورتوں کے یہ فواتح پانچ اقسام پر آتے ہیںجو درج ذیل ہیں۔
۱۔ بسیط مقطعات:
یہ حروف کی وہ قسم ہے جو صر ف ایک حرف پر مشتمل ہے اور یہ تین سورتیں ہیں۔
سورةص: ص والقرآن ذی الذکر۔ (۲۰)
سورةق: ق والقرآن المجید۔ (۲۱)
سورةالقلم: ن والقلم ومایسطرون۔ (۲۱)
۲ دو حروف سے مرکب مقطعات:
ایسے مقطعات قرآن حکیم کی دس سورتوں کے آغاز میں آئے ہیں جو یہ ہیں۔
سورةطٰہٰ: طہ o مانزلنا علیک القرآن لتشقی(۲۲)
سورةالنمل: طسo تلک آیت القرآن وکتاب مبین(۲۳)
سورہ یس: یس o والقرآن الحکیم(۲۴)
سورةمومن: حم o تنزیل الکتاب من اللہ العزیز الحکیم(۲۵)
سورةحم السجدة: حم o تنزیل من الرحمن الرحیم(۲۶)
سورةالزخرف: حم o والکتب المبین(۲۸)
سورةالدخان: حم o والکتب المبین(۲۹)
سورةالجاثیہ: حم o تنزیل الکتب من اللہ العزیز الحکیم(۳۰)
سورةالاحقاف: حم o تنزیل الکتب من اللہ العزیز الحکیم(۳۱)
۳ تین حروف سے مرکب مقطعات:
اس نوع میں قرآن حکیم کی تیرہ سورتیں آتی ہیں۔
سورةالبقرة: الم o ذالک الکتاب لاریب فیہ(۳۲)
سورةال عمران: الم o اللہ لاالہ الاھوالحی القیوم(۳۴)
سوریونس: الرا oتلک آیٰت الکتب الحکیم(۳۴)
سورہھود: الر oکتٰبٌ اُحْکمت اٰیٰتةُ (۳۵)
سورةیوسف: الر oتلک ایت الکتب المبین(۳۶)
سورةابراہیم: الرoکتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ(۳۷)
سورةالشعراء: طسم o ہ تلک ایت الکتب المبین(۳۸)
سورةالقصص: طسمo تلک ایت الکتب المبین(۳۹)
سورةالحجر: الرo تلک ایت الکتب و قرآن مبین(۳۷ا)
سورةالعنکبوت: المo احسب الناس ان یترکوا(۴۰)
سورةالروم: الم o غلبت الروم(۴۱)
سورةلقمن: الم o تلک ایت الکتب الحکیم(۴۲)
سورةالسجدة : الم oتنزیل الکتب لا ریب فیہ من رب العلمین (۴۳)
۴ چار حروف سے مرکب مقطعات:
قرآن کریم کی دو سورتیں چار حروف سے مرکب مقطعات سے شروع ہوئی ہیں۔
سورةالاعراف: المص o کتٰب انزل الیک(۴۴)
سورةالرعد: المرo تلک ایت الکتب(۴۵)
۵ پانچ حروف سے مرکب مقطعات:
صرف دو سورت کا آغاز پانچ حروف پر مشتمل مقطعات سے ہوتا ہے۔
سورةمریم: کھیعص ہ ذکر رحمت ربک عبدہ ذکریا(۴۶)
سورةالشوری: حم o عسق کذالک یو حی الیک (۲۷)
حروف مقطعات کی حکمت:
مفسرین حروف مقطعات کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان حروف کے ذکر سے یہ فائدہ مقصود ہے کہ یہ قرآن، حروف تہجی یعنی ا،ب،ج، د ہی سے مرکب اور مرتب ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ قرآن مجید کاکچھ حصہ مقطع (جدا جدا)حروف میں آیا ہے اور باقی تمام مرکب الفاظ ہیں غرض یہ تھی کہ جن لوگوں کی زبان میں قرآن حکیم کانزول ہوا ہے وہ معلوم کرلیں کہ قرآن انہی کی زبان میں ہے اور انہی حروف میں نازل ہوا ہے جن کو وہ جانتے اور اپنے کلام میں برتتے ہیں اور یہ بات ان لوگوں کے قائل کرنے اور ان کے قرآن حکیم کے مثل لانے سے عاجز ہونے کا ثبوت دینے کے لیے ایک زبردست دلیل ہے کیونکہ اہل عرب باوجود یہ معلوم کرلینے کے کہ قرآن حکیم انہی کی زبان میں اترا اور انہی حروف تہجی کے ساتھ نازل ہوا جس سے وہ اپنے کلام کو بناتے ہیںپھر بھی قرآن کی اس تحدی (چیلنج) کو قبول کرنے سے عاجز رہے کہ اس کے مثل کوئی سورہ یا کم از کم ایک آیت ہی پیش کر سکیں۔ (۴۷)
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی مقطعات کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں” حروف مقطعات کے سلسلے میں سب سے پہلے یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ان کی حیثیت ان سورتوں کے نام یاعنوان کی سی ہے جس سورة سے اس کا تعلق ہوتا ہے چنانچہ جو باتیں سورة میں تفصیلی طور پرموجودہوتی ہیں وہ اجمالی طور پر حروف مقطعات میں بھی مضمر ہوتی ہیںمثلاً جب کوئی کتاب لکھی جاتی ہے تو اس کا ایک نام رکھا جاتا ہے لیکن نام رکھنے میں ہمیشہ کتاب کے مضمون کی مناسبت کا خیال رکھا جاتا ہے اور ایک ایسانام تجویز کیاجاتا ہے جس کے سنتے ہی کتاب کی حقیقت اور اس کا مفہوم سننے والے کے ذہن میں آ جائے مثلاً امام بخارینے اپنی حدیث کا نام”الجامع الصحیح المسند فی احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکھا ہے اس نام کے سنتے ہی یہ علم ہو جاتا ہے کہ اس کتاب میں آنحضرت کی احادیث صحیحہ کو جمع کیاگیاہے۔ (۴۸)
حضرت شاہ ولی اللہ کی بحث سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ سورتوں کے آغاز میں آنے والے حروف تہجی دراصل اس سورة میں مذکورہ مضامین کی مناسبت سے آتے ہیں۔
۳ نداء:
قرآن حکیم کی دس سورتوں کاافتتاح حروف نداء سے کیا گیا ہے جن میں پانچ حضور کوندأ سے شروع کیا گیاہے وہ یہ ہیں۔
سورةالاحزاب: یاایھا النبی اتق اللہ(۴۹)
سورة۔ الطلاق: یاایھا النبی اذطلقتم النساء(۵۰)
سورةالتحریم: یاایھا النبی لما تحرم(۵۱)
سورةالمزمل: یاایھا المزمل(۵۲)
سورةالمدثر: یاایھا المدثر(۵۳)
پانچ سورتوں میں امت کو بذریعہ نداء مخاطب کیاگیاہے۔
سورةالنساء: یاایھا الناس اتقوا ربکم(۵۴)
سورةالمائدة: یاایھا الناس امنوا اوفوا بالعقود(۵۵)
سورةالحج: یاایھا الناس اتقوا ربکم(۵۶)
سورةالحجرات: یاایھا الذین امنوا لاتقدموا(۵۷)
سورةالممتحنہ: یاایھا الذین آمنوا لاتتخدوا(۵۸)
۴۔ جملہ خبریہ:
قرآن حکیم کی تیس سورتوں کوجملہ خبر یہ سے شروع کیا گیا ہے۔
سورةالانفال: یسئلونک عن الانفال(۵۹)
سورةالتوبة: برآة من اللہ ورسولہ(۶۰)
سورةالنحل: اتی امر اللہ فلا تستعجلوہ(۶۱)
سورةالانبیاء: اقترب للناس حسابھم(۶۲)
سورةالمومنون: قدافلح المومنون(۶۳)
سورةالنور: سورة انزلنھا وفرضناھا(۶۴)
سورةالزمر: تنزیل الکتب من اللہ العزیز الحکیم(۶۵)
سورةمحمد: الذین کفروا وصدوا(۶۶)
سورةالفتح: انا فتحنا لک فتحاً مبینا (۶۷)
سورةالقمر: اقتربتِ الساعة وانشق القمر(۶۸)
سورةالرحمن: الرحمن o علّم القرآن(۶۹)
سورةالمجادلة: قدسمع اللہ قول التی(۷۰)
سورةالحاقة: الحاقة o ماالحاقة(۷۱)
سورةالمعارج: سال سائل بعذاب واقع(۷۲)
سورةنوح: انا ارسلنا نوحاً الی قومہ(۷۳)
سورةالقیامة: لااقسم بیوم القیامة(۷۴)
سورةعبس: عبس و تولی(۷۵)
سورةالبلد: لااقسم بھذالبلد(۷۶)
سورةالقدر: انا انزلناہُ فی لیلةالقدر(۷۷)
سورةالبینة: لم یکن الذین کفروا(۷۸)
سورةالقارعة: القارعة مالقارعة(۷۹)
سورةالتکاثر: الھکم التکاثر(۸۰)
سورةالکوثر: انا اعطینک الکوثر(۸۱)
قسم:
قرآن حکیم کی پندرہ سورتوں کا آغاز قسم سے کیا گیا ہے ہر ایک کی تفصیل یہ ہے۔
سورةالصفٰت: والصفٰت صفاً(۸۲)اس میں ملائکہ کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالبروج: والسَّماء ذات البروج(۸۳)اس میں آسمانوں کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالطارق: والسَّماء والطارق(۸۴) اس میں بھی آسمانوں کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالنجم: والنَّجم اذاھَویٰ(۸۵)اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالفجر: والفَجْر ولََیال عشر(۸۶)اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالشمس: والشِّمْسِ وَالضُّحٰھا(۸۷)اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالیل: والَّیل اِذٰا یَغْشی(۸۸)اس میں لواز م افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالضحی : والضحی وَالَّیل اذا سجی(۸۹)اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالعصر : والعصران الانسان لفی خسر (۹۰)اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالذاریات: والذرایات ذرواً(۹۱)اس میں ہوا کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالمرسلات: والمرسلات عرفاً(۹۲)اس میں ہوا کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالطور: والطور وکتب مسطور(۹۳)اس میں پہاڑ اور کتاب کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالتین: والتین والزیتون(۹۴)اس میں نبات کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالنازعات: والنازعات غرفاً(۹۵)اس میں حیوان ناطق کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالعادیات: والعادیات ضبحاً(۹۶)اس میں حیوان ناطق کی قسم کھائی گئی ہے۔
قران حکیم کے طرز خطاب میں ایک خصوصی اور نمایاں طرز یہ بھی ہے کہ اکثر مطالب و مضامین کو قسم کے عنوان سے بیان کیاجاتا ہے جو ان مضامین کی صداقت و حقانیت کی گویا دلیل و برہان ہوتی ہے اہل عرب کا یہ خصوصی ذوق تھا کہ جب کسی امر پر ان کو اصرار ہوتا اور اس کی حقانیت و صداقت کو مخاطب پر واضح کرنا چاہتے تو اس مقام پر قسم کا عنوان اختیار کرتے اور قرآن کریم چونکہ لغت عرب پر نازل ہوا اس لیے ان کے اس خصوصی ذوق کی رعایت بھی ایسے معجزانہ انداز کے ساتھ کلام اللہ میں رکھی گئی ہے کہ وہ اقسام قرآن کے لطائف پر حیرت زدہ ہوتے اور بجزاس اعتراف کے کو ئی چارہ کار نہ ہوتا کہ خدا کی قسم یہ کلام بشر نہیں ہے۔
حافظ ابن القیم اپنی کتاب ”البیان فی اقسام القرآن“ میں فرماتے ہیں تمام مضامین میں اس امر کی توضیح فرمائی کہ جہاں جس چیز کی قسم کھائی اس چیز کو وہاں بیان کردہ مضمون سے پوری مناسبت ہوتی ہے۔ (۹۷)
۶۔ شرط کلام:
سورتوں کی چھٹی نوع کلام شرط ہے اس سے سات سورتیں شروع ہوتی ہیں۔
سورةالواقعة: اذا وقعت الواقعة(۹۸)
سورةالمنافقون: اذاٰ جاءَ َک المنا فقون(۹۹)
سورةالتکویر: اذا الشَّمْس کُوِّرَتْ(۱۰۰)
۱۰۔ تعلیل کلام :
قرآن حکیم کی صرف ایک سورہ تعلیل کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔
سورةقریش: لِایلٰفِ قُرَیْشٍ(۱۱۶)
ابوشامہ نے ان دس انواع کو دو اشعار میں یوں بیان کر دیا ہے۔
اثنی علی نفسہ سبحانہ بثبو ت الحمد والسلب لما استفتح السورا
والا مروالشرط والتعلیل والقسم الد عاحروف التھجی استفھم الخیرا
فواتح السور القرآن کے بارے میں شاہ ولی اللہ کانقطہ نظر:
برصغیرمیں فہم قرآنی کے عظیم عالم شاہ ولی اللہ نے فواتح سور القرآن کے ضمن میں بڑی دلچسپ بحث کی ہے وہ لکھتے ہیں۔
” چونکہ قرآن مجید کی سورتوں کا اسلوب بالکل بادشاہوں کے فرمان جیسا تھا اس وجہ سے ان سورتوں کی ابتداء اور انتہاء میں بھی مکاتیب کا ہی انداز اختیار کیاگیاچنانچہ جس طرح بعض مکاتیب کی ابتداء غرض تحریر کی وضاحت سے کی جاتی ہے بعض مکاتیب ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا کوئی عنوان نہیں ہوتا بعض مکاتیب طویل ہوتے ہیں اور بعض مختصر، بالکل اس انداز سے اللہ تعالیٰ نے بھی بعض سورتوں کو حمدو ثناء سے شروع کیااور بعض کو غرض تحریر کی وضاحت سے مثلاًذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِلْمُتَّقِیْنَ۔ (۱۱۸) سورہ انزلنھا و فرضنا ھا“(۱۱۹)یہ اندازبالکل وہی ہے جیسا کہ عام تحریروں میں اختیار کیاجاتاہے مثلاًھذا ماصالح علیہ فلان و فلان، ھذا ما اوصی بہ فلان“یعنی وہ تحریر ہے جس پر فلاں فلاں نے اتفاق کیا ہے یہ وہ تحریر ہے جس کی فلاں آدمی نے وصیت کی ہے۔
آنحضرت نے صلح حدیبیہ پر جوعہد نامہ تحریر فرمایا تھااس کی ابتداء بھی اس طرح ہوئی تھیہذا ماقاضیٰ علیہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم(یہ وہ عہد نامہ ہے جسے آنحضرت نے منظور فرمایاہے )
بعض آیات کی ابتداء اس انداز سے ہوتی ہے جس انداز کے وہ نامے ہوتے ہیں جن کی ابتداء کاتب اور مکتوب کے نام سے کی جاتی ہے مثلاً
تنزیل الکتاب من اللہ العزیز الحکیم(۱۲۰)
کتٰبٌ اْحْکِمَتْ آیٰاتْہ ثُمَّ فُصِّلتْ مِنْ لَدُنْ حکیمٍ خبیرٍ(۱۲۱)
ان آیات کے آغاز کاانداز ان تحریروں سے مشابہت رکھتا ہے جو اس انداز سے شروع کی جاتی ہیں جسیے حضرت خلافت کا حکم صادر ہوا۔ جب آنحضرت نے ہر قل شاہ روم کے پاس نامہ بھیجا تھا اس کی ابتداء یوں ہوئی تھی۔
من محمد رسول اللہ ھر قل عظیم الروم
اللہ کے رسول محمدکی طرف سے شاہ روم ہر قل کے نام
بعض سورتیں مختصر واقعات اور تحریروں کے اندازپربغیر کسی عنوان کے بھی نازل ہوئی ہیں۔
اذا جاء ک الفافقون(۱۲۲)
قدسمع اللہ قول التی تجادلک فی زوجھا(۱۲۲)
یایھا البنی لم تحرم(۱۲۴)
اسی طرح اہل عرب کا فصیح ترین کلام قصائد کی شکل میں ہے قصائد میں اصل مقصد سے پہلے تمہید کے طور پر تشبیب لکھی جاتی ہے اور تشبیب میں عجیب و غریب مقامات اورحیرت انگیز اور ہولناک واقعات کاذکر کرنا ان کی بہت پرانی روایت ہے قرآن مجید کی بعض سورتوں میں یہ اسلوب بھی اختیار کیاگیاہے مثلاً
والصفٰت صفاً فالزاجرات زجرًا(۱۲۵)
والذاریت زروًافا لحاملات وقراً(۱۲۶)
اذالشمس کورت واذا النُّجُوم انکَدَرَتْ(۱۲۷)
شاہ ولی اللہ کی مذکورہ بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سورتوں کاآغاز فرمان کی مناسبت سے ہے اور یہ عرب کے اس اسلوب کے عین مطابق ہے جسے وہ اپنی تحریر میں استعمال کرتے تھے۔ (۱۲۷)
کسی چیز کا ظاہری حسن ہی اس کی عمدہ خوبی کا پتہ دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم کے فواتح بھی اپنی خوبی اور حسن میں بے مثال ہیں اور یہی اس کے اعجاز کی ایک لطیف سی دلیل ہے جب ہم قرآن حکیم کی سورتوں کے فواتح کا جائزہ لیتے ہیں تو عمدہ کلام کی تمام خوبیاں اس میں موجود پاتے ہیںچنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی فواتح السور کے عمدہ اور جامع ہونے پر یوں بحث کرتے ہیں۔
” کلام کے عمدہ ابتداء کی ایک خاص ترین نوع، نوعة الاستہلال نامی بھی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آغاز کلام اس چیز پر شامل ہو جو کہ متکلم فیہ کے مناسب حال ہے اور اس میں باعث سیاق کلام کا اشارہ موجود ہو۔"(۱۲۸)
چنانچہ اس بارے میں سب سے اعلیٰ اور احسن نمونہ سورة الفاتحہ ہے جو کہ قرآن کریم کا مطلع اور اس کے تمام مقاصد پر مشتمل ہے اس کی تفصیل یوں ہے ” خداوند کریم نے ایک سو چار کتابیں نازل فرمائیں اور ان سب کے علوم چار کتابوں توریت، زبور،انجیل اور قرآن میں ودیعت رکھ دئیےپھر توریت، زبور،اور انجیل کے علوم قرآن میں ودیعت رکھے اور علوم القرآن کو اس حصہ میں مفصل رکھا اور مفصل کے جملہ علوم صرف سورہ فاتحہ میں ودیعت فرما دئیے لہذا جو شخص سورہ فاتحہ کی تفسیر معلوم کرے گا وہ گویاتمام کتب منزلہ کی تفسیر سے واقف ہو جائے گا۔ (۱۲۹)
خواتم سور القرآن:
خواتم کاسہ حرفی مادہ خ،ت،م ہے یہ ثلاثی مجرد سے باب ”ضَرَبَ“ آتا ہے ختم ختماً وختاماً الخاتمبمعنی ہر چیز کا اختتام، خواتم وجمع ہے(۱۳۰) جبکہ ابن منظورلکھتے ہیں۔
خَتَمَ یَخْتَمُ ختماًو ختاماًالاخیر عن الحیاتی والجمع خواتم وخواتیم ویقال ختم فلان القرآن اذا قرء ہ الی اخرہ و خاتم کلی شئیوخاتمہ، عاقبة،واخرہ(۱۳۱)
مذکورہ بحث میں خواتم السور سے مراد سورتوں کا آخری حصہ یااختتام ہے بعض مفسرین اس اصطلاح کو مقاطع السوریامنتہائے سور کے نام سے بھی تعبیر کرتے ہیں اس مفہوم کی تائید مندرجہ ذیل احادیث سے بھی ہوتی ہے
من حفظ من خواتیم سورة الکھف(۱۳۲)
اعطی خواتیم سورةالبقرة(۱۳۳)
قال خاتمة سورة البقرة فانھا(۱۳۴)
کسی کلام کاآخری حصہ اپنی اہمیت کے اعتبار سے کسی طرح سے بھی پہلے حصے سے کم نہیں ہوتا دراصل یہ وہ آخری کلمات ہوتے ہیں جو انسانی ذہن پر گہرا اثر ڈالتے ہیں قرآن حکیم کی سورتوں کا خاتمہ بھی اپنے حسن اورفصاحت و بلاغت کے لحاظ سے کسی اعجاز سے کم نہیںاگر بنظر غائر خواتم السور کا مطالعہ کیا جائے تو سابقہ مضمون کا خلاصہ جامع انداز سے سامنے آتا ہے یہی وجہ ہے علماء مفسرین نے خواتم السور القرآن کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے جلال الدین سیوطی رقم طراز ہیں۔
”یہ بھی فواتح ہی کی طرح حسن وخوبی میں طاق ہیں اس لیے کہ یہ کلام کے وہ مقامات ہیں جو آخر میں گوش زد ہوا کرتے ہیں اور اسی باعث سے یہ سامع کو انتہائے کلام کا علم حاصل کرانے کے ساتھ معانی بدیعہ کے بھی متضمن ہو کر آتے ہیں یہاں تک کہ ان کے سننے سے پھر سے نفس کے بعد میں ذکر کی جانے والی بات کا کوئی شوق باقی نہیں رہتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سورتوں کادعاوں، نصیحتوں،فرائض،تمہید،تہلیل،مواعظ،وعد،وعید اور جامع صفات الہیہ پر ہوا ہے۔ (۱۳۵)
مقصود اس اقتباس سے یہ ہے کہ قرآن حکیم کی سورتوں کاخاتمہ اتنے عمدہ کلام پر ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر عمدگی اور حسن کاتصور نہیں کیاجاسکتااس کی حکمت یہ ہے کہ یہ ماسبق کلام کا خلاصہ ہوتے ہیں اور پورے موضوع کو سمیٹ رہے ہوتے ہیں تاکہ انسان تشنگی محسوس نہ کرے اور نہ ہی سوچ سکے کہ اس سے بہتر خاتمہ لایاجاسکتا تھا۔
خواتم السورپر شاہ ولی اللہ کی بحث:
شاہ ولی اللہ کے نزدیک قرآن حکیم کی سورتوں کی مثال شاہی فرمان کی طرح ہے یہی وجہ ہے سورتوں کی ابتداء و انتہاء میں مکاتب کے طریقہ کی رعایت رکھی گئی ہے چنانچہ رقم طرازہیں۔
”جس طرح مکتوبات کو کلمات جامع، وصایائے نادرہ اور احکامات سابقہ کے لیے تائیدات اور اس کی مخالفت کرنے والے کے لئے تہد یدات پر تمام کرتے ہیں ایسے ہی خداوند تعالیٰ نے سورتوں کے آخری حصہ کوکلمات جامع اور حکمت کے سرچشموں سے تائیدات بلیغہ اور تہدیدات عظیمہ پر ختم فرمایا نیز جس طرح بعض مکاتیب کا اختتام کبھی جامع کلمات پر کیا جاتا ہے اور کبھی اچھی اچھی وصیتوں اور نصیحتوں پر، اسی انداز پر کلام مجید میں بھی مختلف سورتوں کو کبھی جوامع کلم اور کبھی احکام کے لواحق پر اور کبھی انتہائی سخت قسم کی تاکید پر تمام کی جاتی ہے۔"(۱۳۶)
شاہ ولی اللہ کے اسی نقطہ نظر کے پیش نظر سورة البقرة کا خاتمہ نہایت عمدہ دعاوں اور جامع کلمات پر ہوا ہے جو حسن خاتمہ کی ایک دلیل ہے اسی طرح وصایا( لضائح اور ہدایات) کی عمدہ نظیر سورة آل عمران ہے۔
یاایھا الذین امنو اصبروا وصابرواوارابطوا واتقواللہ لعلکم تفلحون(۱۳۷)
سورة النساء کا خاتمہ فواتح کی طرح احکام کی تاکید اور صفات الہیہ پر ہوا ہے اسی طرح سورة یوسف کے خاتمے میں قرآن حکیم کی جامع صفات اور اس میں مذکور واقعہ کی حکمت و موعظمت بیان ہوئی ہیںفواتح وخواتم میں ربط کی چند مثالیں:
اگر سورة الانعام کے فاتحہ و خاتمہ پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اس میں صفات الہیہ کا اتباع کیاگیا ہے۔ آغاز اس آیت سے ہوتا ہے :
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّورَ ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرِبِِّھْم یَعْدِلُوْنَ“(۱۳۸)
سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور اندھیرا اوراجالا بنایا پھربھی یہ کافر اوروں کو اپنے رب کے ساتھ برابر ٹھہراتے ہیں۔
سورة الانعام کی مذکورہ ابتدائی آیت میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء تخلیق ارض و سماء اور نور ظلمات کا ذکرہے ساتھ ہی شرک کا ردبھی کر دیاگیاہے۔ جبکہ خاتمہ ان جملوں پر کیا گیا ہے۔
وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مآ اٰتٰکُمْ اَنَّ رَبَّکَ سَرِ یْعُ الْعِقٰابِ وَاِنَّہ لَغَفُورٌ رَّحِیْمٌ(۱۳۹)
اور وہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین پر اپنا نائب بنایا اور تم میں سے بعض کے بعض پر درجے بلند کردیئے تاکہ تمہیں اپنے دیئے ہوئے حکموں میں آزما لے بے شک تیرا رب جلدی عذاب دینے والا ہے اور بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اس آیت میں انسان کی زمین پر حیثیت، آزمائش،سرعت عذاب اور اسکی رحمت و مغفرت کا ذکر ہے۔ اگر مذکورہ سورة کے فاتح وخاتم پر غور کریں تو اس میں ایک خاص معنوی ربط نظر آئے گا مثلاً سورة کا آغاز تحمید سے کیاگیا اور خاتمہ مغفرت ورحمت پر ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتا ہے تو وہی مغفرت و رحمت کا سزاوار بھی ہوتا ہے اسی وجہ سے تحمید کو مقدم کیاگیا۔ پھر تخلیق ارض وسماء کا ذکر کرنے کے بعد ضرورت تھی کہ اس کارخانہ عالم کوکوئی چلائےتو اللہ تعالیٰ نے انسان ہی کو زمین میں اپنا نائب بنایاپھر جب نیابت سے نوازا تو اللہ تعالیٰ کی آزمائش کی اس گھڑی میں کافر لوگ ناکام ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے مطیع کامیاب جو لوگ اس کے بعد بھی خدا کو ماننے اور جاننے میں ہٹ دھرمی سے کام لے رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے سریع الحساب ہے اور جو صحیح حق خلافت کو اداکر رہے ہیں تو ان کے لیے غفور رحیم ہے۔
اثبات آخرت یا تذکر بما بعد الموت کی حامل سورة الواقعہ پر غور کریں اس میں بھی ایک ربط نظر آتا ہے جس کا آغاز یوں ہوتاہے۔
اذا وقعت الواقعة o لیس لوقعتھا کاذبہ(۱۴۰)
جب ہوجائے گی ہونے والی اس وقت اس کے ہونے میں کسی کو انکار کی گنجائش نہ ہوگی۔
سورة کی ابتداء میں جس واقعہ کا ذکر ہے اس سے مراد قیامت ہےفرمایا کہ یہ امرشدنی ہے یہ آکر رہے گی اور تم کسی طرح بھی اس سے بھاگ نہ سکو گے نیز اگر تم اس وہم میں مبتلا ہو کہ تم کو جھوٹ موٹ ایک ہونے سے ڈرایا جارہا ہے تو اس میں جھوٹ کا ادنیٰ شائبہ بھی نہیں۔
سورة کی آخری آیت ہے:
”ان ھذا لھم الحق المبین o فسبح باسم ربک العظیم(۱۴۱)
بے شک یہ تحقیقی یقینی بات ہے پس اپنے رب کے نام کی تسبیح کر جو بڑاعظمت والا ہے۔
اس آیت میں بالواسطہ طور پر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہے اور تلقین اور استقامت ہے کہ جوباتیں اوپر بیان ہوئی ہیں سب یقینی حقائق ہیں ان میں کسی شبہ گنجائش نہیں ہے البتہ تمہاری قوم کے لوگ نہیں مان رہے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور اپنے رب عظیم کی تسبیح بیان کرومذکورہ سورة کے فاتحہ وخاتمہ سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں میں ربط موجود ہے شروع میں فرمایا کہ یہ ایک حقیقت ہے اور واقع ہونے والی ہے اس کے آنے میں تحلفہ نہیں ہو گاجبکہ آخرمیں فرمایا کہ یہ حق الیقین ہے اس میں بھی کسی شائبہ کی گنجائش نہیں دونوں میں اس واقعہ کے لازمی ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ جب قیامت امرشدنی ہے تو اپنے رب عظیم کی تسبیح پڑھو کہ وہ ظلم سے پاک ہے اس دن ہر شخض کو اس کے اعمال کے مطابق سزا دیتا ہے۔ (۱۴۳)
احکام کے سلسلے میں سورة العنکبوت ہے جس کے آغاز میں جہادکا حکم ہے :
الٓمٓo اَحَسِبَ النّٰاسُ اَنْ یُتْرَکُوا اَنْ یَّقُولُوْا اٰمَنَّا وَھُمْ لاّٰ یُفْتَنُون۔
المoکیالوگ خیال کرتے ہیں یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لائے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی۔
اس آیت میں واضح طور پر اس امر کی طر ف اشارہ ہے امت محمدیہ کی آزمائش جہاد سے ہو گی۔ آخری آیت میں ہے۔
والذین جاھدو افینا لنھد ینھم سبلنا وان اللہ لمع المحسنین (۱۴۴)
اور جنہوں نے ہمارے لئے کوشش کی ہم ضرور اپنی راہیں سمجھا دیں گے اور بے شک اللہ نیک کاروں کے ساتھ ہے۔
اس آیت میں واضح ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے کے لئے اجر کا اعلان ہے اورساتھ ہی یہ بشارت بھی کہ مجاہدین کو اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہو گیمذکورہ سورة میں جس مضمون سے سورة کا آغاز کیاتھا اس پر خاتمہ فرمایا شروع میں یہ واضح کیا گیا تھاکہ اہل ایمان کی آزمائش لازمی ہے اور ایماندار اس امتحان میں سرخرو ہوں گے تو ان کے دو اجر ہیں اول ان کے لیے دنیامیں راستے آسان ہو ں گے دوسرے آخرت میں معیت الہی نصیب ہو گی۔
فواتح و خواتم السور پر قلم اٹھانے والے علماء و مفسرین:
جن علماء ومفسرین نے فواتح و خواتم سورة القرآن کے ربط پر بطور خاص قلم اٹھایا ہے ان میں سر فہرست علامہ جلال الدین سیوطی ہیںجن کی اس موضوع پر تصنیف”مراصد المطالع فی تناسب المقاطع والمطالع“ کے نام سے ہےاسی طرح علامہ کرمانی کی کتاب العجائب بھی اس موضوع پر بہترین ہے برصغیر پاک وہند کے علماء میں شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب ”الفوز الکبیر“ میں ضمناً اس موضوع کا تذکرہ کیاہے البتہ مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب عربی زبان میں” سبق الغایات فی نسق الایات" اس موضوع پر عمد ہ ہے دیگر مفسرین میں جنہوں نے اپنی تفاسیر میں اس امر کا خاص اہتمام کیاہے۔ فخر الدین رازی،احمد مصطفی المرانی،عبدالحق حقانی صاحب ”فتح المنان“ اور مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ”بیان القرآن“ شامل ہیں۔
حوالہ جات
۱۔ البقرة۲:۲۳۲۴ ۲۔ ابن منظور، لسان العرب،دار صادر،بیروت ج۲،ص۵۲۷
۳۔ السیوطی جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن،مکتبہ المعارف الریاض،۱۹۹۶،ج۲،ص۳۹۳
۴۔ نفس مصدر ۵۔ نفس مصدر ۶۔ الفاتحة،۱،۱
۷۔ الانعام،۶،۱ ۸۔ الکھف،۱۸،۱ ۹۔ سبا،۳۴،۱
۱۰۔ فاطر،۳۵:۱ ۱۱۔ الفرقان،۲۵،۱ ۱۲۔ الملک،۷۷،۱
۱۳۔ بنی اسرائیل،۱۷،۱ ۱۴۔ الحدید،۵۷،۱ ۱۵۔ الحشر،۰۹،۱
۱۶۔ الجمعة،۶۲،۱ ۱۷۔ التغابن،۶۴،۱ ۱۸۔ الاعلیٰ،۸۷،۱
۱۹۔ الاتقان،حوالہ مذکور،ج۲،ص۲۹۲ ۲۰۔ ص،۳۸:۱ ۲۱۔ ق،۵:۱
۲۲۔ (ا)القلم ۲۳۔ طٰہٰ،۲۰،۱ ۲۴۔ النمل،۲۷،۱
۲۵۔ یٰس،۳۶:۱ ۲۶۔ مومن،۴۰:۱ ۲۷۔ حٰم السجدة،۴۱،۱
۲۸۔ ۴۲،۱ ۲۹۔ الزخرف،۴۳،۱ ۳۰۔ الدخان،۴۴،۱
۳۱۔ الجاثیہ،۴۵:۱ ۳۲۔ الاحقاف،۴۲:۱ ۳۳۔ البقرة:۲،۱
۳۴۔ آلِ عمران:۳،۱ ۳۵۔ یونس:۱۰،۱ ۳۶۔ ھود،۱۱:۱
۳۷۔ یوسف،۱۲،۱ ۳۸۔ ابراہیم،۱۴،۱ ۳۹۔ الحجر،۱۵،۱
۴۰۔ الشعراء:۲۶،۱ ۴۱۔ القصص:۲۸،۱ ۴۲۔ العنکبوت:۲۹،۱
۴۳۔ الروم:۳۰،۱ ۴۴۔ لقمٰن:۳۱،۱ ۴۵۔ السجدة:۳۲،۱
۴۶۔ الاعراف،۷،۱ ۴۷۔ الرعد،۱۳،۱ ۴۸۔ مریم،۱۹،۱
۴۹۔ الاتقان، حوالہ مذکور،ح۲،ص۲۹ ۵۰۔ شاہولی اللہ،الفوزالکبیرفی اصول التفسیر(مترجم)قرآن
۵۱۔ الاحزاب:۳۳،۱ محل، تاجران کتب،کراچی،۱۳۸۳ہ ص۱۶۶،۱۶۷
۵۲۔ الطلاق،۶۵،۱ ۵۳۔ التحریم،۷۶:۱ ۵۴۔ المزمل:۷۳،۱
۵۵۔ المدثر:۷۴،۱ ۵۶۔ المائدة:۵،۱ ۵۷۔ الحج:۲۲،۱
۵۸۔ الحجرات:۴۹،۱ ۵۹۔ الانفال:۸،۱ ۶۰۔ التوبہ:۹،۱
۶۱۔ الخل،۱۶،۱ ۶۲۔ الابنیاء،۲۱،۱ ۶۳۔ المومنون:۲۳،۱
۶۴۔ النور:۶۴،۱ ۶۵۔ الزمر:۳۹،۱ ۶۶۔ محمد:۴۷،۱
۶۷۔ الفتح:۴۸،۱ ۶۸۔ القمر:۵۴،۱ ۶۹۔ الرحمن:۵۵،۱
۷۰۔ المجادلہ:۶۹،۱ ۷۱۔ الحاقہ:۶۹،۱ ۷۲۔ المعارج:۷۰،۱
۷۳۔ نوح:۷۱،۱ ۷۴۔ القیمٰة:۷۵،۱ ۷۵۔ عبس:۸۰
۷۶۔ البلد:۹۰،۱ ۷۷۔ القدر:۹۷،۱ ۷۸۔ البینہ:۹۸،۱
۷۹۔ القارعة:۱۰۱،۱ ۸۰۔ التّکاثر:۱۰۲،۱ ۸۱۔ الکوثر:۱۰۸،۱
۸۲۔ صافات:۳۷،۱ ۸۳۔ البروج:۸۵،۱ ۸۴۔ الطارق:۲،۸۶،۱
۸۵۔ النجم،۵۳،۱ ۸۶۔ الفجر،۸۹،۱ ۸۷۔ الشمس:۹۱،۱
۸۸۔ اللیل:۹۶،۱ ۸۹۔ الضحیٰ:۹۳،۱ ۹۰۔ العصر۔ ۱۰۳،۱
۹۱۔ الذاریات:۵۱،۱ ۹۲۔ المرسلات:۷۷،۱ ۹۳۔ الطور:۵۲،۱
۹۴۔ التین:۹۵،۱ ۹۵۔ النازعات:۷۹،۱ ۹۶۔ العادیات:۱۰۱،۱
۹۷۔ الاتقان:حوالہ مذکورہ،ج۲،ص۳۷۳ ۹۸۔ الواقعہ،۵۶،۱ ۹۹۔ المنافقون:۶۳،۱
۱۰۰۔ التکویر،۱۸۱،۱ ۱۰۱۔ الانفطار:۸۶،۱ ۱۰۲۔ الزلزال:۹۹،۱
۱۰۳۔ الانشقاق:۸۴،۱ ۱۰۴۔ النصر:۱۱۰،۱ ۱۰۵۔ الجن:۷۳:۱
۱۰۶۔ العلق:۹۶،۱ ۱۰۷۔ الکفرون:۱۰۹،۱ ۱۰۸۔ الفلق:۱۱۳،۱
۱۰۹۔ الناس:۱۱۷،۱ ۱۱۰۔ الدھر:۷۶،۱ ۱۱۱۔ النباء:۷۸،۱
۱۱۲۔ الغاشیة:۸۸،۱ ۱۱۳۔ انشراح:۹۴،۱ ۱۱۴۔ الفیل:۱۰۵،۱
۱۱۵۔ الماعون:۱۰۷،۱ ۱۱۶۔ قریش:۱۰۶،۱ ۱۱۷۔ الاتقان،حوالہ
۱۱۸۔ البقرة:۲،۱ ۱۱۹۔ النور:۲۴،۱ مذکور،ج۲،ص۹۴
۱۲۰۔ مومن:۴۰،۱ ۱۲۱۔ ھود:۱۱،۱ ۱۲۲۔ المنافقون،۶۳
۱۲۳۔ المجادلہ:۵۸،۱ ۱۲۴۔ الطلاق:۶۵،۱ ۱۲۵۔ الصٰفّٰت:۲۷،۱،۲
۱۲۶۔ الذاریات:۱۵،۱،۲ ۱۲۷۔ دیکھیےالنور الکبیر،حوالہ مذکور ص۱۱۵،۱۱۶
۱۲۸۔ الاتقان:حوالہ مذکور،ج۲،ص۲۹۴ ۱۲۹۔ نفس مصدر ۱۳۰۔ المنجد،ص۶۵۸
۱۳۱۔ ابن منظور،لسان العرب،حوالہ مذکور،ج۱۲ص۶۴ ۱۳۲۔ ابو داود
۱۳۳۔ نسائی باب الصلوة،۲۵ ۱۳۴۔ دارمی،فضائل القرآن،ص،۱۴
۱۳۵۔ الاتقان فی علوم القرآن، حوالہ مذکورص ۱۳۶۔ الفوز الکبیر فی اصول
۱۳۷۔ آلِ عمران:۳،۲۰۰ ۱۳۸۔ الانعام:۶،۱ التفسیر،حوالہ مذکور،ص۱۱۴،۱۱۶
۱۳۹۔ الانعام۶،۲۶۵ ۱۴۰۔ الواقعہ:۵۶،۱،۲ ۱۴۱۔ الواقعہ:۵۶،۹۵،۵۶
۱۴۲۔ اصلاحی،امین احسن،تدبر قرآن،مرکز انجمن خدام القرآن لاہور،۱۹۷۳،ج۷،ص۱۸۸
۱۴۳۔ العنکبوت:۲۹،۱،۲ ۱۴۴۔ العنکبوت:۲۹،۹۶
Similar topics
» وحی کی حقیقت اور اہمیت اسلامی اور استشراقی افکار کا تحقیقی مطالعہ
» مبادی تدبر قرآن : ایک مطالعہ
» تحقیقی عمل میں خاکے کی اہمیت
» اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول 1
» اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول ۲
» مبادی تدبر قرآن : ایک مطالعہ
» تحقیقی عمل میں خاکے کی اہمیت
» اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول 1
» اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول ۲
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Sun Aug 12, 2012 9:26 pm by عبدالحئ عابد
» Research Papers Thesis مقالات ایم اے،پی ایچ ڈی
Sun Aug 12, 2012 8:05 pm by عبدالحئ عابد
» تاریخ تفسیر ومفسرین
Wed Jul 11, 2012 4:54 pm by عبدالحئ عابد
» تفسیر تفہیم القرآن عربی: سید ابوالاعلیٰ مودودی
Fri Jun 15, 2012 4:20 pm by عبدالحئ عابد
» علم حدیث میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کی خدمات
Fri Jun 15, 2012 4:15 pm by عبدالحئ عابد
» حرمت سود: ابوالاعلیٰ مودودی
Fri Jun 15, 2012 4:12 pm by عبدالحئ عابد
» اگر اب بھی نہ جاگے تو: ازشمس نوید عثمانی
Sat May 14, 2011 4:48 am by عبدالحئ عابد
» کالکی اوتار اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم
Sat Apr 09, 2011 9:29 pm by عبدالحئ عابد
» نراشنس اور آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم
Sat Apr 09, 2011 9:24 pm by عبدالحئ عابد