Search
Latest topics
اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول 1
Page 1 of 1
اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول 1
اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول
1 پس منظر
ترقی یافتہ علمی دنیا مں تحقیقی مقالہ لکھنے یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور معیاری بنانے کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہی میں شروع ہوچکا تھا- چنانچہ حواشی و کتابیات کے معیاری اصول اور اشاریہ سازی کا اہتمام مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں میں اسی عرصے میں نظر آنے لگا تھا۔ معاشرتی علوم اور ادبیات میں علمی نوعیت کی جدید رسمیات پر مبنی کتابیں اور تحقیقی مجلے اس وقت عام ہونے لگے تھے جب رائل ایشیا ٹک سوسائٹی نے خصوصا تاریخ کے موضوعات پر اپنے مطالعات کو جدید اصولوں کے تحت شائع کرنے کا آغاز کیا اور یورپ کے دیگر ملکوں جیسے جرمنی، اٹلی، فرانس اور ہالینڈ کے تحقیقی اور اشاعتی اداروں نے بھی اس جانب پیش قدمی کی اور اسی زمانے میں خصوصا تحقیق و ترتیب متن کی بہترین کوششیں سامنے آنے لگیں۔
مغربی جامعات اور تحقیقی و طباعتی ادارے اس بارے میں اپنے اختیار کردہ یا وضع کردہ رسمیات کو بے حد اہمیت دیتے اور ان کی پابندی کرتے ہیں۔ ان اداروں اور جامعات میں ان رسمیات کے معیارات میں فرق یا اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن ہر ادارہ یا جامعہ اپنے لئے وضع کردہ اور اختیار کردہ اصولوں پر سختی سے کاربند رہتی ہیں۔ آکسفورڈ اور کیمبرج کی جامعات میں ان کے طباعتی اداروں میں یہ رسمیات باہم مختلف ہوسکتی ہیں لیکن کیمرج میں لکھا جانے والا ہر مقالہ یا وہاں سے شائع ہونے والی ہر کتاب بڑی حد تک یکساں معیارات اور اصولوں کے تحت لکھی یا شائع کی جاتی ہیں۔ یوں ہم تحقیق میں ہر مغربی جامعہ یا تحقیقی ادارے کو اپنی مخصوص رسمیات یا اسالیب و اصولوں پر عمل پیرا دیکھ سکتے ہیں۔
لیکن افسوس آج تک اردو میں تحقیق کی رسمیات متفقہ طور پر نہ طے ہو سکیں۔ نہ ان کے بارے میں سوچا گیا اور نہ ہی کوئی مناسب پیش رفت ہوسکی۔ چنانچہ ایک ہی جامعہ میں، بلکہ اس جامعہ کے ایک ہی شعبے میں لکھے جانے والے مقالات باہم ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ کسی ایک مقالے میں حواشی کسی طرح لکھے جاتے ہیں اور کتابیات کسی طرح مرتب کی جاتی ہے۔ دوسرے مقالے میں ان کے لکھنے اور مرتب کرنے کے اصول مختلف ہوسکتے ہیں۔
راقم نے، قریب قریب اسی عرصے میں، جب ڈاکٹر نجم الاسلام نے اس جانب توجہ دی، اس بارے میں سوچنا اور ایک حد تک عمل کرنا شروع کردیا تھا۔ بلکہ پی ایچ ڈی کیلئے دوران تحقیق (1970ء -1975) ہی اس تعلق سے جدید مغربی معیارات اوراسالیب یا رسمیات میں اس حد تک جاذبیت محسوس کی تھی کہ اپنے مقالہ "تحریک آزادی میں اردو کا حصہ" (مطبوعہ: انجمن ترقی اردو، کراچی،1976ء) کو ان ہی جدید اصولوں اور اسالیب کے تابع رکھا اور اسناد اور مآخذ کے حوالوں، حواشی اور "فہرست اسناد محولہ"(کتابیت) کے لئے وہ اصول اختیار کیئے جو اس وقت تک بلکہ اب بھی اردو میں شاذ ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔
4.2 رسمیات مقالہ نگاری
4.2.1 عنوان کا تعین
اگرچہ عنوان راست تحقیق کے ذیل میں نہیں آتا اور رسمیات کا اطلاق اس پر لازم نہیں، لیکن اس سے مقالہ نگار کے تحقیقی مزاج اور تجزیاتی و تنقیدی ذہن کا اظہار ہوتا ہے۔ لہذا اسے جامع اور معنویت کا حامل ہونا چاہیے اور مناسب ہے کہ یہ غیر ضروری الفاظ اور طوالت سے پاک، مختصر اور جاذب توجہ ہو۔ اردو میں بالعوےم عنوان کی جاذبیت کیلئے اس کی معنویت کی مناسبت سے الفاظ کے انتخاب اور الفاظ کی ترتیب یا بندش کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی جاتی- مثلا ایک عنوان ہے:
"پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کی صورت حال اس کے مسائل اور ان کا حل"
یہ عنوان اپنی جگہ یقینا قابل فہم ہے، لیکن اس کا انداز قدیم ہے اور یہ غیر ضروری طوالت کا حامل ہے۔ یا قدرے مختصر بھی کیا جا سکتا تھا جیسے:
"پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت: صورت حال، مسائل اور حل "
عنوان میں قدیم اور روایتی انداز کی بجائے حروف جار اور حروف ربط سے گریز کرکے زیادہ جامعیت اور اختصار پیدا کیا جا سکتا ہے، جبکہ معنویت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح ایک عنوان ہے:
"حضرت خواجہ باقی باللہ کی علمی اور متصوفانہ خدمات کا ایک تنقیدی جائزہ"
یہاں لفظ جائزہ مناسب نہیں ہے۔ اسے مطالعہ ہونا چاہیے جو بامعنی ہے اور پھر یہ بھی محل نظر ہے کہ "تنقیدی جائزہ" تحقیق کا موضوع کیسے ہوسکتا ہے! یہاں "تحقیقی مطالعہ" ہونا چاہیے۔ اس سے قطع نظر اگر تنقیدی مطالعہ موضوع کا تقاضا ہو تو عنوان یوں ہوسکتا ہے:
"حضرت باقی باللہ: علمی اور متصوفانہ خدمات کا تنقیدی مطالعہ"
ورنہ "حضرت باقی باللہ: علمی اور متصوفانہ خدمات کا مطالعہ" کافی ہے، جس میں اس مطالعے کی تنقیدی یا تحقیقی نوعیت کا مفہوم شامل ہے۔ اسی طرح ایک عنوان ہے۔
"شرعی حدود کے نفاذ کی تاریخ اور پاکستان میں ان کے نفاذ کا جائزہ"۔
یہ عنوان اس طرح ہوسکتا تھا:
"شرعی حدود کا نفاذ: پاکستان میں ان کے نفاذ کی تاریخ"
اسی طرح، دو تین دہائیوں قبل کا ایک عنوان ہے:
"گزشتہ صدی میں راجھستان میں اردو کی ترقی میں غیر مسلموں کا حصہ"
اس میں "گزشتہ صدی" کے بجائے "انیسویں صدی" ہونا چاہیے تھا کیونکہ یہ عنوان اگر اکیسویں یا بائیسویں صدی میں پڑھا جائے تو صرف عنوان کو پڑھنے سے مغالطہ یقینی ہے۔ چنانچہ یہ عنوان اس طرح ہو سکتا ہے:
" راجھستان میں اردو کی ترقی: انیسویں صدی میں غیر مسلموں کا حصہ "
ایک اور عنوان ہے:
"مولانا محمد باقر آگاہ کا عربی، فارسی اور اردو ادب میں حصہ"
یہ اس طرح ہو سکتا تھا:
"مولانا محمد باقر آگاہ: عربی فارسی اور اردو خدمات"
یا: "مولانا محمد باقر آگاہ: عربی فارسی اور اردو خدمات، ایک مطالعہ"
ایک یہ بھی عنوان ہے:
"ہند فارسی ادب میں سر ہند کے مصنفین کا حصہ"
یہ عنوان یوں ہوسکتا تھا:
"ہند فارسی ادب: مصنفین سرہند کا حصہ"
عنوان کے انتخاب میں اختصار اور الفاظ کا جامع و بامعنی استعمال بڑی اہمیت اور کشش رکھتا ہے اور عنوان کی جاذبیت ہی مقالے کو قابل توجہ بنا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں ذیلی عنوان کو قوسین میں لکھنے کا ایک عام رحجان ہے، جبکہ قوسین کا استعمال عنوان میں غیر ضروری اور بلا جواز ہو سکتا ہے۔ مثلا ایک عنوان ہے:
"سب رس کا مطالعہ (تحقیقی کی روشنی میں)"
یہ قطعی مناسب نہیں۔ اسے اس طرح لکھنا چاہیے تھا:
سب رس کا مطالعہ: تحقیق کی روشنی میں
بلکہ زیادہ بہتر ہوسکتا ہے:
"سب رس: ایک تحقیقی مطالعہ"
ان مثالوں کی روشنی میں گویا عنوان کو مختصر اور جامع ہونا چاہیے اور حرف جار و حروف ربط کے غیر ضروری استعمال سے بے نیاز ہو اور اس میں قوسین کے استعمال سے گریز کیا جانا چاہیے۔
4.2.2 اقتباس کا مسئلہ
بعض اوقات موضوع اور نفس مضمون کی مناسبت سے مقالہ نگار/مصنف کو کوئی اقتباس یا قول بطور حوالہ یا مثال یا ثبوت اپنے خیال کی تائید و حمائت میں اپنے دلائل و تجزیے کو موثر اور مستند بنانے کے لیے نقل کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ انداز کہ ہر جگہ اصل لفظ یا عبارت نقل کر دی جائے، جدید اصولوں کے تحت مستحسن نہیں ہے۔ اب رواج یہ ہے کہ جو عبارت، اقتباس یا خیال بطور ثبوت یا معاونت پیش کیا جائے، وہ اصل لفظوں یا کل عبارت کی صورت میں نہ ہو بلکہ اس کل عبارت یا اقتباس کو مقالہ نگار اپنے لفظوں میں اختصار کے ساتھ تحریر کرے اور اس عبارت یا اقتباس کا مکمل حوالہ حاشیے میں ضروری تفصیلات کے ساتھ درج کر دے کہ وہ ماخذ میں کس صفحے پر ہے یا کس صفحے سے کس صفحے تک پھیلا ہوا ہے۔ ہمارے بعض مصنفین کئی کئی پیراگراف بلکہ کئی کئی صفحات پر مشتمل عبارت بھی بعینہ نقل کر دیتے ہیں، جبکہ محض اس عبارت کے نفس مضمون کو اپنے لفظوں میں تحریر کر دینا اور اس کے ماخذ کا حوالہ دے دینا کافی ہے۔ ہاں، بعض صورتوں میں، جہاں عبارت کے اصل الفاظ نقل کرنے ضروری ہوں تاکہ وہ اصل الفاظ بطور مثال یا ثبوت بحث کی معاونت کر سکیں تو وہ متعلقہ الفاظ یا سطور یا عبارت بصورت اقتباس نقل کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس کے لیےپابندی یہ ہونی چاہیے کہ اگر وہ اقتباس محض چند لفظوں یا ایک آدھ سطر پر مشتمل ہو تو اسے جاری جملے ہی میں واوین میں نقل کر دینا چاہیے اور پھر اس کے خاتمے پر حاشیے کا نشان لگا کر اس کا حوالہ یا ماخذ کی تفصیل حاشیے میں درج کر دینا چایئے۔ لیکن اگر اقتباس ایک آدھ سطر سے زیادہ ہو تو اسے نیچےاگلی سطر کی جگہ پر ، درمیان میں، دونوں جانب یکساں فاصلہ چھوڑ کر نقل کرنا چاہیے اور یہ بھی التزام رکھنا چایئے کہ اس اقتباس کی کتابت کا سائز عام کتابت کے سائز سے ۔۔۔۔۔۔۔دو فونٹ کم ہو۔ اس طرح وہ اقتباس درمیان میں ہونے اور کتابت کا سائزکم ہونے کی وجہ سے نمایاں اور متن سے مختلف نظر آتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ کسی حجم کا ہو اس کے آغاز و خاتمے پر واوین کا اہتمام ضرور ہونا چاہئے۔ مثلا ایک اقتباس ذیل میں دیکھا جا سکتا ہے، جس میں دوہرے واوین﴿دو واوین دونوں جانب﴾اور اکہرے واوین ﴿ایک ایک واو، دونوں جانب﴾ کا استعمال اور ان کافرق توجہ طلب ہے:
"شیخ مبارک ۔۔۔نے فورا" ایک شرعی فتوے کامضمون تیار کیا اور اسے سلطنت کے سربرآور دہ علماء کے دستخطوں کے لیےپیش کر دیا ۔ اس فتوے میں اس مشہور اسلامی اصول کہ بیان کیا گیا کہ اگر قرآن و سنت کے احکام اپنے نفاذ میں کسی صورت حال پر پوری طرح منطبق نہ ہوتے ہوں اور علمائے شریعت اپنی تفسیر و تعبیر میں متحد نہ ہوں تو ' ایک سلطان عادل' کو یہ حق حاصل ہےکہ جو اجتہادات پیش کیے گیے ہوں، ان میں سے کسی ایک کو تسلیم کر لے۔ "۱
اس اقتباس میں، جو دوہرے واوین میں لازما نقل کیا جائے گا، اس لیے یہاں اسی طرح نقل کیا گیا ہے ، تین الفاظ "ایک سلطان عادل" کو اکہرے واوین میں تحریر کیا گیا ہے، جس کی غرض و غایت یہ ہے کہ اقتباس کی اس عبارت میں ۔۔۔۔۔یا یہ کسی بھی عبارت یا جملے میں کیا جا سکتا ہے، ان الفاظ یا' ایک سلطان عادل' کو نمایاں کرنا یا پڑھنے والوں کو ان کی طرف خاص طور پر توجہ دلانا مقصود ہو۔
اس اقتباس کے آغاز میں جو تین نقطے دیکھے جا سکتے ہیں، ان کا مطلب کسی اقتباس میں یہ ہوتا ہے کہ اس مقام پر اس اقتباس کی کچھ عبارت، جملہ یا الفاظ اقتباس سے حذف کر دیے گیے ہیں ، جو کسی وجہ سے غیر ضروری سمجھے گئے۔ اس صورت میں تین نقطے لگانے کا یہی مطلب ہوتا ہےاور پھر اس کے بعد عبارت کو مربوط کر لیا جاتا ہے۔
بین السطور اقتباس کی مثال یہ ہے، جسے ایک عام عبارت میں شامل یا نقل کی جا رہا ہے:
۔۔۔نوجوان ابوالکلام کا خیال تھا کہ "جو تحریک صرف بر عظیم تک محدود ہو، وہ مقامی مسلم ملت کی کوئی خدمت نہیں کر سکتی، وہی تحریک کچھ مفید ہو سکتی ہے جو تمام دنیا کے مسلمانوں کو اپنی آغوش میں لے لے" ۔ ۲ لیکن عمر رسیدہ ابوالکلام محض ہندوستانی قوم پرست اور سیاست داں بن کر رہ گے ! ۔۔۔
اگر یہیں اسی جگہ کوئی مصرعہ، کوئی شعر یا اشعار نقل کرنے ہوں تو ان کو واوین میں لکھنا ضروری نہیں، ہاں حوالہ دینا ضروری ہے ، اور اس مقصد کے لیے شعر کے اختتام پر حاشیے کا نشان لگانا چاہیے۔ یہاں بیت کی علامت ﴿ ﴾ درج کر کے شعر نقل کیا جاتا ہے
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی تھا ۳
اس طرح شعری اقتباس کے لیے واوین کا اہتمام ضروری نہیں اور اگر یہ اقتباس محض ایک مصرعے یا مصرعے کے ایک ٹکڑے کا ہے تو اسے جاری سطر کے درمیان نقل کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ عبارت دیکھیے کہ: ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے ابوالکلام آزاد کی فکری تبدیلیوں کا جس طرح تجزیہ کیا اور انھیں اتحاد عالم اسلام کا داعی قرار دینے کے بعد جب انھٰیں محض ہندوستانی قوم پرست ہوتے دیکھا تو یہی سوچا ہو گا کہ "تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا" ورنہ وہ چاہتے تو خود کو جمال الدین افغانی کا جانشین بنا سکتے تھے اور سارے عالم اسلام کی جانب سے عزت ووقار حاصل کر سکتے تھے۔
لیکن اگر یہ اقتباس ایک سے زیادہ مصرعوں یا شعر یا اشعار پر مشتمل ہو تو انھیں نیچے درمیان میں، دونوں جانب یکساں فاصلہ رکھ کر درج کرنا چاہیے۔ اس صورت میں آغاز اور خاتمے پر واوین لگانا ضروری نہیں۔
اشعار کے لیے بھی ماخذ کا حوالہ دینا ضروری ہے۔ چناچہ شعر یا اشعار کے خاتمے پر، جہاں جہاں ضروری ہو ، نثری اقتباس کی طرح حاشیے کا نشان لگانا ضروری ہے ۔ ان اشعار کے ماخذ ایک یا ایک سے زیادہ ہوں اور الگ الگ ہوں تو ہر ایک کے لیے متعلقہ مقام پر حاشیے کا نشان لگانا اور پھر ان کے ماخذ کی تفصیلات حاشیے میں درج کرنا ضروری ہے۔
4.2.3 ماخذ کی نشاندہی کے مسائل:
تحقیق کی اخلاقیات اور دیانت داری کا تقاضا ہے کہ جو بھی نیا خیال، نکتہ یا واقعہ کہیں سے یا کسی سے اخذ کیا جائے یا کسی بھی قسم کے ماخذ سے کسی طرح کا استفادہ کیا جائے، اس کا مکمل حوالہ دینا لازمی ہے۔ حوالے جتنےزیادہ ہوں گے مطالعے کے استناد اور وقار میں اضافے کا باعث ہوں گے۔ اس سے مصنف یا مقالہ نگار کے مطالعے کی وسعت، جستجو کی نوعیت اور دیانتداری کا ثبوت ملت ہے ۔ اس لیے حوالوں میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے اور استفادے کے ہر ہر مقام پر ماخذ کا حوالہ ضرور دینا چاہیے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حوالہ کس مقام پر دیا جاۓ؟ عام طور پر حوالے حاشیے میں دیے جاتے ہیں جو چاہے پا ورقی ہو ، یا باب یا مقالے یا کتاب کے آخر میں ۔ اس میں اختلاف بظاہر نہیں ہے، لیکن گزشتہ چند دہا ہیوں سے مغربی دنیا میں حوالوں کے لحاظ و شمار کو ان کی نوعیت کے لحاظ سے دو بڑے حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے ۔ ایک بنیادی ماخذ اور دوسرے ثانوی ماخذ۔ بنیادی ماخذ وہ ماخذ ہوتے ہیں جن کا تعلق موضوع مطالعہ سے راست یا قریبی ہوتا ہے۔ مثلا شیکسپیر کی ہر تحریر، جو چاہے کسی نوعیت اور کسی حالت میں ہو، وہ بنیادی ماخذ کہلائے گی اور یہی نہیں بلکہ عہد شیکسپیر میں ان موضوعات پر جو کچھ لکھا گیا، چاہے وہ مطبوعہ ہو یا اب تک غیر مطبوعہ ہو، اگر وہ ہمارے استفادے میں آیا ہے تو ہم اسے بنیادی ماخذ ہی مین شمار کریں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس عہد کے تعلق سے اس عہد کاتمام مواد، جو کسی صورت میں ہمارے مطالعے میں ہماری معاونت کرے، وہ بھی بنیادی ماخذ میں شمار ہو گا۔ اگر اورنگ زیب ہمارا موضوع مطالعہ ہو تو اورنگ زیب کی ہر تحریر اور اورنگ زیب کے تعلق سے اس عہد میں لکھی جانے والی ہر تحریر،جو ہمارے لیے معاون ہو ، سند کا کام دے گی اور بنیادی ماخذ کہلایے گی۔ اس اعتبار سے تمام عصری دستاویزات ، فرامین ، مراسلت اور خطوط وغیرہ بنیادی ماخذ ہوتے ہیں۔
ان کے برعکس ثانوی ماخذ وہ ہوتے ہیں جو بنیادی ماخذ کی تعریف پر پورے نہیں اترتے یا تو عہد مابعد کے جائزوں اور مطالعوں پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شیکسپیر کے مذکورہ موضوعات پر عہد شیکسپیر کے بعد کسی مصنف نے قلم اٹھایا یا بعد میں مطالعے اور جائزے تحریر ہوتے رہے، چاہے وہ کسی نوعیت کے ہوں، ثانوی ماخذ کہلائیں گے۔ اورنگ زیب پر اگرچہ جادو ناتھ سرکار کی تصنیفات بے حد معیاری ہیں، لیکن انھیں اورنگ زیب پر ثانوی ماخذ کہا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں محمد ساقی مستعد خان کی تصنیف "ماثر عالمگیری " جو تجزیے و معلومات کے لحاظ سے جادو ناتھ سرکار کی تصنیف " ہسٹری آف اورنگ زیب" سے کم درجے کی ہے لیکن بنیادی ماخذ شمار ہو گی۔
اسی طرح آج اگر شیکسپیر اور اورنگ زیب پر اعلی معیا رکی تحقیقات ہوں، مقالات لکھے جائیں، کتابیں تحریر ہوں اور ان میں بنیادی ماخذ سے استفادہ کیا جائے،تب بھی انھیں بنیادی ماخذ نہیں ثانوی ماخذ ہی کہا جائے گا۔
حوالوں کے ضمن میں چند دہائیوں سے ایک یہ رویہ سامنے آیا ہے کہ بنیادی ماخذ کا حوالہ، نہایت اختصار سے بین السطور ہی قوسین میں درج کر دیا جائے اور عبارت کی روانی کو جاری رکھا جائے۔ بعض مقالہ نگار بنیادی کے ساتھ ساتھ ثانوی ماخذ کا حوالہ بھی اسی طرح بین اسطور قوسین میں درج کر دیتے ہیں، لیکن یہ انداز مستحسین نہیں ہے اور اسی لیے یہ رویہ عام نہیں ہوا۔ جبکہ اکثر مصنفین حوالوں کو بین السطور پیش کرنے کے حق میں نہیں اور ان کو حواشی میں درج کرنا مناسب سمجھتے ہیں ۔ یہی طریقہ مناسب بھی ہے، کیونکہ جو سند بین السطور پیش کی جارہی ہے اس سے طرح استناد کو بھی دیکھنے سے دلچسپی رکھتے ہوں۔ استناد کا حوالہ صرف خاص دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اہم ہوتا ہے۔ چناچہ استناد حاشیے میں بھی پیش کیے جا سکتے ہیں اور اکثریت کا عمل ہے اور مناسب بھی یہی ہے۔
اس طرح اگرچہ حوالہ پاروقی حاشیے میں دینا سب سے زیاد ہ مناسب ہے کہ اسی صفحے پر ماخذ کی نشاندہی ہو جاتی ہے لیکن فی الوقت اس امر میں یہ رکاوٹ یا دشواری موجود ہے کہ جب سے کتابت نے مشینی سہولت اپنا لی ہے، ابھی تک کمپیوٹر پر اردو کتابت کا مناست نظام وضع نہیں ہو سکا ہے کہ حواشی کو سہولت کے ساتھ پاورقی تحریر کیا جا سکے۔ اس میں وقت، محنت اور توجہ زیادہ درکار ہوتی ہے، اس وجہ سے فی الوقت اگر حواشی کو باب کے آخر یا کتاب کے اختتام پر شامل کیا جائے تو سہولت رہتی ہے۔ زیادہ بہتر ہے کہ کتاب کے اختتام پر ہی حواشی شامل ہوں۔۔۔ ہر باب کے بعد متعلقہ حواشی ہوں تو بار بار ماخذ کو دیکھنے کا عمل بیزارکن ہو سکتا ہے۔ ایک ہی جگہ سلسلے سے تمام حواشی کو مہ یک نظر تلاش کرنا آسان عمل ہے۔ اس لیے بھی کہ حواشی کے فوری بعد بلکہ متصل "فہرست اسنادمحولہ" ﴿کتابیات﴾ ہوتی ہے جسے حوالوں کی تفصیلات کے لیے اگر فوری اور اسی وقت دیکھنا ہو تو یہ کام مزید آسان ہو جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ماخذ کا حوالہ درج کس طرح کیا جائے؟
4.2.4 حوالہ درج کرنے کا طریقہ
ماخذ کا حوالہ دینے کے لیے عبارت میں متعلقہ مقام پر بالعموم حاشیے کی علامت یعنی' ۔۔۔۔' پر نمبر شمار دیا جاتا ہے، جیسے: 3،2،1 لیکن مشینی کتابت کے آغاز میں چونکہ اس علامت کو تلاش کرنا، استعمال کرنا دشوار لگا اس لیے مشینی کاتبوں نے اس علامت کے بجائے قوسین کا استعمال سہل سمجھا اس لیے قوسین میں نمبر شمار لکھ کر تقاضا پورا کرنے لگے اور یہ قدرے رواج بن گیا۔ یہ عمل آسان تو ہے لیکن بیت کا مذکورہ نشان بھی کچھ مشکل نہیں۔ قوسین میں حاشیہ نمبر درج کر کے اس مقصد کو پور کرنے میں ایک قباحت یہ ہے کہ قوسین کے متنوع استعمال رہتے ہیں اس لیے کسی اشتباہ اور یکسانیت سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ حاشیے کی نشاندہی کے لیے قوسین کے استعمال کے بجایے روایتی بیت کا نشان '۔۔۔۔' یہ استعمال کیا جایے۔
اب سوال یہ ہے کہ ماخذ یا سند کے حوالے میں ماخذ کو بنیاد بنایا جائے یہ مصنف کو ؟ یعنی
4.2.5 حوالے کا اندراج مصنف کے ذیل میں یا ماخذ کے ذیل میں؟
کچھ مصنفین حاشیے میں سند کا حوالہ ماخذ کو بناتے ہیں اور حوالہ جس طرح درج کرتے ہیں ، اس کی درج ذیل صورتیں عام ہیں:
1- اخلاق اور فلسفہ اخلاق" مصنف﴿یااز﴾مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، ندوة المصنفین، دہلی 1964ء ص 35
1- اخلاق اور فلسفہ اخلاق"، مولانا حفظ الرحمن سیو ہاروی، ص 35
لیکن یہ اندراج یا ماخذ کا حوالہ منطقی او ر درست نہیں۔کیو نکہ کتاب "اخلاق اور فلسفہ" کو اس کےمصنف مولانا حفظ الرحمن سیو ہاروی نے لکھا ہے، جو اس کی تصنیف کا سبب بھی ہیں اور اس میں تحریر کردہ خیالات و مباحث کے ذمے دار بھی ہیں ۔ ہمارے لیے کسی تخلیق یا تصنیف کا خالق اور مصنف بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور کتاب ثانوی اہمیت رکھتی ہے۔ چونکہ محصولہ معلومات کا اصل وسیلہ یا سبب مصنف ہے، اس لیے معلومات کا ماخذ مصنف ہے اور مصنف کے وسیلے سے یہ کتاب ضمنی ماخذ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس مصنف نے ایسے ہی خیالات، جو اس کتاب میں بیان کیے ہوں، کسی اور جگہ بھی بیان کیے ہوں، اس صورت میں بنیادی اہمیت یا وسیلہ مصنف ہی کا ہے اور ذیلے حیثیت ان دونوں ماخذ کو حاصل رہے گی۔ اس لیے منطقی طور پر مصنف کے ذیل میں ماخذ کا حوالہ درج ہونا چاہیے۔چنانچہ مذکورہ ماخذ کا حوالہ مذکورہ تفصیلات کے ساتھ اس طرح درج ہو گا:
مولانا حفظ الرحمن سیو ہاروی " اخلاق اور فلسفہ اخلاق" ، ندوة المصنفین، دہلی 1964ء ص 35
اب یہاں اس حوالے میں، اور اسی طرح سے حوالہ دینے کے بہتر اصول کے تعلق سے کچھ باتیں قابل غور اور محل نظر ہیں۔ مثال کے طور پر:
1- ہر حوالے کو مختصر سے مختصر ہونا چاہیے تاکہ حاشیے میں جگہ زیادہ استعمال نہ ہو اور سب کچھ یا غیر اہم اور غیر ضروری تفصیلات کو بار بار لکھنے، پڑھنے اور دہرانے کی گراں باری نہ رہے، اس لیے:
2 – حوالے کو محض بنیادی تفصیلات تک محدود رہنا چاہیے، کیونکہ تمام متعلقہ تفصیلات آخر میں "فہرست اسناد محولہ" ﴿یا کتابیات﴾میں لازما موجود ہوتی ہیں۔ یہاں صرف وہ تفصیلات یا اشارے کافی ہیں، جن کی مدد سے تمام تفصیلات کو فہرست اسناد محولہ" میں آسانی سے تلاش کیا اور دیکھا جا سکتا ہے،
3 – اس مصنف کے نام میں اور دیگر مصنفین کے ناموں میں، مولانا، مولوی، علامہ ، حکیم، ڈاکٹر وغیرہ اصل نام کا حصہ نہیں۔ بعض ناموں کے ساتھ اس نوعیت کے سابقے اور لاحقے استعمال تو ہوتے ہیں، لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ کبھی اور کسی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اور کسی جگہ استعمال نہیں بھی ہوتے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایسے مصنفین کی کسی کتاب میں یہ سابقے یا لاحقے استعمال ہوتے ہیں اور کسی دوسری کتاب میں شاید یہ استعمال نہ بھی ہوں۔ اس صورت میں اور کچھ نام کی غیر ضروری طوالت کو کم کرنے کے لیے مناسب یہی ہے کہ اس طرح کے سابقے اور لاحقے نام کے لازمی جزو کے طور پر استعمال نہ کیے جائیں۔
چنانچہ درج بالا حوالہ درج کرنے کی ایک مناسب صورت یہ ہوگی: حفظ الرحمن سیوہاروی، "اخلاق اور فلسفہ اخلاق"، ص 35
لیکن حالیہ رجحانات اور سہولت و افادیت کی مناسبت سے یہاں محض اتنا حوالہ ہی کافی ہو گا:
حفظ الرحمن سیوہاروی ، ص 35
کیونکہ کتاب کا نام، دیگر تفصیلات کی طرح، "فہرست اسناد محولہ" میں موجود ہوگا۔ اس لیے تمام تفصیلات وہاں بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں۔ ہاں، اگر اس مصنف کی ایک سے زیادہ تصانیف استفادے میں آئی ہیں تو پھر اپنے اپنے حوالے میں مصنف کے نام کے بعد ہر تصنیف کا عنوان بھی ضرور شامل ہوگا۔ مثلا
1 – حفظ الرحمن سیوہاروی " اخلاق اور فلسفہ
2 - حفظ الرحمن سیوہاروی " اسلام کا اقتصادی نظام"، ص 128
اور اگر ان دونوں ماخذ کا حوالہ کسی ایک ہی حاشیے میں یکے بعد دیگرے آرہا ہے تو یہ حوالےیوں درج ہوں گے:
1 - حفظ الرحمن سیوہارویاخلاق" ، ص 35 " اخلاق اور فلسفہ اخلاق" ، ص 35
2 – ایضا، "اسلام کا اقتصادی نظام" ، ص 128
واقعہ یہ ہے کہ جدید رجحانات، ضرورتوں اور تقاضوں کے پیش نظر آج علمی دنیا میں اختصار کو بڑی اہمیت حاصل ہو گئی ہے ۔ یہ اختصار وقت کے ضیاع اور زحمت سے بچنے کے لیے بلکہ وسیع تر معنوں میں اظہار یا ابلاغ کو نیو کلیائی اختصار دینے کے لیے روارکھا جا رہا ہے۔ چنانچہ کوشش یہ ہے کہ وقت اور گنجائش دونوں کو بچایا جائے اور با ر بار کی تکرار سے، جو کسی بھی نوعیت کی ہو، بچا جائے۔ اس مقصد کے لیے گزشتہ چند دہائیوں سے حوالے کے اندرج اورفہرست اسناد محولہ ﴿کتابیات﴾ کی ترتیب میں مزید تبدیلیاں اختیار کی جا رہی ہیں۔ اس اختصار اور جامعیت کا تقاضا تھا کہ تصنیف کےسن اشاعت کو بڑی اہمیت حاصل ہو گئی ہے ۔ یعنی اب تمام تفصیلات سے قطع نظر حاشیے میں ماخذ کا حوالہ دیتے ہوئے تصنیف کا سن اشاعت اور صفحہ نمبر درج کر دینا کافی ہے۔ یعنی اب حوالہ، اگر اس مصنف کی صرف ایک کتاب استفادے میں آئی ہے ، تو اس طرح دیا جاتا ہے:
حفظ الرحمن سیوہاروی، ص 78
ورنہ اگر اس مصنف کی دو کتانیں استفادے میں آئی ہیں، یا آرہی ہیں تو پھر یہ حوالہ اس طرح متعلقہ تصنیف کے سن اشاعت کے ساتھ دیا جائے گا:
حفظ الرحمن سیوہاروی ، 1964ء ، ص 78
یہ اصول زیادہ سہل اور جامع ہے ۔ اس سے جگہ اور وقت اور محنت ہر ایک کا ضیاع نہیں ہوتا۔ ان تصانیف کی تمام تفصیلات، مصنف کے ذیل میں، "فہرست اسناد محولہ" ﴿کتابیات﴾ میں فوری دیکھی جاسکتی ہیں۔
ہاں، جن مقالات میں، مختصر ہونے کے باعث علیحدہ سے "فہرست اسناد محولہ" کی ضرورت نہ رہے، ان میں حاشیوں میں صرف سن اشاعت کو ملحوظ رکھے بغیر، مصنف کا نام، تصنیف کا عنوان اور اگر اس ماخذ کا حوالہ پہلی بار حاشیے میں دیا جا رہا ہے ، تو دیگر تفصیلات بھی درج کی جائیں گی، لیکن یہ حوالہ دوسری بار یا بار بار آرہا ہے ، تو مصنف کی صرف ایک ہی تصنیف استفادے میں آ رہی ہے تو پہلی بار مصنف کا نام اور دیگر تفصیلات درج کی جائیں، بعد میں صرف مصنف کا مختصر نمبر کافی ہے۔
گویا اب تک یہ امور طے ہوئے کہ ماخذ کا حوالہ دینا ہو تو حاشیے میں
1 – صرف مصنف کا نام اور صفحہ نمبر کافی ہے، جیسے ندوی ، سید سلیمان، ص 12
2 – لیکن اگر اس مصنف کی ایک سے زیادہ تصانیف استفادے میں آئی ہیں، تو حوالے میں مصنف کا نام، متعلقہ تصانیف کا سن اشاعت اور صفحہ نمبر کافی ہے، جیسے ندوی، سید سلیمان، 1950ء ص 12
3 – ایک یہ بھی التزام رکھا جاسکتا ہے کہ اگر استفادے میں کوئی اور مصنف" ندوی" نہیں ہے تو یہ اندراجات اور مختصر ہوں گے۔ کیونکہ نام کی تفصیل بھی کتابیات میں مل جائے گی، اس لیے یہ اندراجات اس طرح ہوں گے:
ندوی، ص 12، ندوی 1950ء ، ص 12
4 – اگر مقالہ مختصر ہے اور اس میں "فہرست اسناد محولہ" شامل نہیں کی جارہی تو ماخذ کا حوالہ حاشیے میں پہلی بار مفصل دیا جایے گا اور دوسری بار یا بار بار وہ حوالہ مختصر یعنی صرف مصنف کی ایک سے زیادہ تصانیف استفادے میں آرہی ہیں تو مصنف کے نام کے ساتھ تصنیف کا عنوان بھی تحریر کرنا ضروری ہے اور پھر صفحہ نمبر بھی۔
4.2.6 صنف کا نام کس طرح درج کیا جائے؟
اب سوال یہ ہے کہ حوالے میں مصنف کا نام کس طرح درج کیا جائے ؟یعنی کیا اس طرح درج کرنا مناسب؟:مولانا محمد حفظ الرحمن سیوہاروی "اسلام کا اقتصادی نظام"۔۔۔
لیکن دیکھا جائے تو اس نام کو اسی طرح درج کرنا سائنٹیفک اصولوںتحت مناسب نہیں ۔کیونکہ ضروری نہیں کہ اس مصنف کا نام ہر جگہ ہر تصنیف میں مولانا محمد حفظ الرحمن سیوہاری لکھا گیا ہو ۔اس مصنف کی دو تصانیف کی تفصیلات اوپر درج کی گئیںِِ،ان میں سے ”اخلاق اور فلسفہءاخلاق،،پر مصنف کا نام تحریر ہے :”مولانا حفظ الرحمن سیوہاری ،،۔۔اور دوسری تصنیف ”اسلام کا اقتصادی نظام ،،پر اس طرح لکھا ہے :”مولانا محمد حفظ الرحمن سیو ہا ری ،،۔یہ بھی ممکن ہے کہ یہ مصنف جب ”مولانا ،،نہ رہے ہوں اور اس دور میں انھوں نے کوئی کتاب لکھی ہو جو یہاں استفادے میں آرہی ہے تو وہ نام شاید یوں لکھا ہوگا:”حفظ الرحمن سیو ہاری ،،یا ”محمد حفظ الرحمن،،۔۔چونکہ کتابیات یا حوالوں میں وہ نام لکھنے چاہئیں،جو تصنیف پر لکھا ہو، اس صورت میں کوئی لا علم مقالہ نگار ان تین ناموں کو الگ الگ مصنف سمجھ کر۔۔حروف تہجی کے لحاظ سے
تین مختلف مقامات پر ان کا اندراج کرے گا ۔ایک شاید ”مولانا ،،کے تحت درج ہوگا،دوسرا نام ”محمد ،،کے ذیل میں ،اور تیسرا نام ”حفظ الرحمن
،،کے ذیل میں۔
ہمارے ہاں ،معاشرتی اور اخلاقی تقاضوںکے باعث،ناموںکو درج کرنے کے معاملے میں ہمیشہ تکلفات اور احترامات لازم رہتے ہیں۔
مغربی دنیا نے تواس کا بہت آسان اور با سہولت حل نکال لیا اور ناموں کے آخری جزو کو جو چاہے خاندانی ہو یا نسبتی ،پہلے درج کرتے ہیں
اور پھر وقفہ کا نشان (،)لگا کر بقیہ نام تحریر کر دیتے ہیں۔مثلاًٍٍ اس لحاظ سے ہمارے نام یوں لکھے جا ئیںگے:
جعفری، سیدرئیس احمد؛میمن، محمدعمر ؛صدیق،سعیداللہ؛
شہاب قدرت اللہ؛صدیق،محمد؛مستور،خدیجہ؛احمد،
عزیز؛خاں،سیداحمد؛بیگ،مرزافر حت اللہ؛وغیرہ۔
اس اعتبار سے شاعروںکے نا م اور تخلص کا لحاظ ہم یوں لکھتے ہیں:
غالب، مرزااسداللہ خاں؛ آتش،خواجہ حیدر علی؛بیدل،
مرزاعبدالقادر؛سعدی،مصلح الدین؛وغیرہ۔
لیکن جب اسی اصول کے تحت ہمیں یہ نام بھی بعینہ لکھنے پڑیں،جیسے :ندوی ،سلیمان؛ لاہوری، ضیاء الدین؛سیوہاروی،حفظ الرحمن؛علی گڑھی،
لطف اللہ؛ بہاری، محب اللہ؛تو ہمارے لیے یہ ترتیب بالعموم قابل قبول نہیںرہتی۔اور اسی مناسب سے جب یہ اصول اختیار کر لیاجائے اور کسی
تصنیف پر جب یہ نام تحریر ہوں :غالب دہلوی؛حافظ شیرازی؛ مجاز لکھنوی؛مرزاابوطالب لندنی، تو انھیںیوں لکھنا پڑتا ہے:دہلوی،غالب؛
شیرازی، حافظ؛ لکھنوی، مجاز؛ لندنی،مرزاابوطالب ۔جبکہ ان ناموں کی تمام تر عرفیت ان کے تخلص سے ہے یا محض شہروں سے نہیںہے۔
مذکورہ بالاصورتوں میں سے یہ نام ہمارے لیے ،جدید تر مغربی اصولوں کے مطابق،ذہنی و عملی طور پر قابل قبول بھی ہیں اور قدرے رواج میں
بھی ہیں، مثلاً جعفری، سید رئیس احمد؛غالب،مرزااسداللہ خاں؛ندوی، سید سلیمان۔
اس عمل کی ایک عمدہ مثال ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی تصنیف ”برعظیم پاک وہند کی ملت اسلامیہ،،(مطبوعہ:شعبہءتصنیف وتالیف وترجمہ،
جامعہ کراچی،کراچی،1967ء راقم کی تصنیف”تحریک آزادی میںاردو کا حصہ،،(مطبوعہ:انجمن ترقی اردو ،کراچی،1976)ہے،
اور راقم کی دیگر متعدد تصانیف اور مقالات میں یہی ترتیب روا رکھی گئی ہے۔
ان تمام مذکورہ مثالوں میں صرف تخلص کے بعد کے لاحقے منطقی طو ر پر محل نظر ہیں کیو نکہ اگر عرفیت یا نام کا نمایاں جزو ملحوظ رہے تو ہمارے معاشرتی
اور ثقافتی پس منظر میں تخلص اس مقصد کے لیے کافی ہے ۔ہم یہا ں مروجہ جدید تر اصولوںمیں اپنے مخصوص مزاج کے پیش نظر یہ تصرف کر سکتے
ہیں کہ حوالے اور کتابیات میں محض شاعروں کے نام کو تخلص کے تحت درج کریں گے اور باقی سارے نام ان کے آخری جزو کے لحاظ سے شامل کریںگے۔یہ عمل اس لیے بھی قابل قبول ہو سکتا ہے کہ ہر شاعر اپنے تخلص کے بعد علاقائی نسبت نہیں لگاتا۔اس لیے یہاں نسبتی حوالے یا لاحقے
سے صرف نظر کرنا ایک محدود استثنائی عمل ہو گا۔اس طرح اب حوالوں یا کتابیات میں درج ذیل ناموں کی ترتیب یوں رہے گی:
غالب دہلوی، اسداللہ خان؛ ابوالحسن علی ؛پاریکھ،ڈاکٹر عبدالرﺅف؛ سیو ہاروی، محمد حفظ الرحمن؛ احمد،انوار؛وغیرہ۔
اب اس عمل میں۔۔۔آخری دو ناموں میں ،یا اس طرح کے دیگر ناموں ”احمد،،نام کا معروف جزونہیں ہے اور یہ شخصیات”عزیز،،اور ”انوار،،کے جزو سے معروف ہیں ،بظاہر ان ناموں کو توڑنا اور کم معروف جزو کو ترجیح دینا ناگوار محسوس ہوتا ہے لیکن یکسانیت اور عادت کو برقرار
رکھنے کے لیے اسے گوارا کرنا مناسب ہے اورکسی بے قاعدگی سے بچنے کے لیے ضروری ہے
اگر ہم کلی طور پر ، تخلص سے قطع نظر ، یہ جدید تر اصول اختیار کر لیتے ہیں تو کتابیات میں کسی نام کو تلاش کرنے میں کسی طرح کوئی الجھن ،دشواری اور ناکامی نہ ہوگی۔ جبکہ ہمارے ہاں یہ معاملہ ،کہ ناموںکو کس طرح کتب خانوں اور کتابیات کی ترتیب میں ملحوظ رکھاجائے ،ہنوز کسی متفقہ فیصلے تک نہیںپہنچ سکا۔ متعددکوشش ہوتی رہی ہیں ،جو اگرچہ قابل غورہیں،لیکن ان پر سب کا اتفاق نہیںہے۔
یہاں یہ کہاجا سکتاہے کہ نام کے آخری جزو کے لحاظ سے ،مثلًاندوی ،سید سلیمان،توعام لوگ ہمارے ہاں اس ترتیب کے عادی نہیں ہیںاور
وہ کتابیات وغیرہ میں سید سلیمان ندوی ،سید۔ کے تحت ہی یہ نام تلاش کریںگے ،تو اس کا حل بہت آسان ہے اور جو ہمارے رواج میں بھی ہے
کہ جدید
تر اصول کے تحت اس نام کا اندراج تمام تفصیلات کے ساتھ ندوی، سید سلیمان ہی کے تحت ہوناچاہیے لیکن کتابیات کو زیادہ سے زیادہ مکمل ،جامع اور آسان وباسہولت بنانے کے لیے یہ اندراج یوںہوگا:ندوی ،سید سلیمان؛لیکن سلیمان ندوی کے تحت بھی ایک اندراج ہو گااور وہ اس طرح ہو گا،یعنی ندوی کے تحت مذکورہ اندراج کے علاوہ ”سلیمان،،کی جگہ بھی ایک اندراج اس طرح ہوگا:
سلیمان ندوی ،سید دیکھیے:ندوی ،سید سلیمان۔
اس ضمنی حوالے سے وہ تمام افراد جو چاہے ندوی کے تحت یہ نام تلاش کریںیا سلیمان کے تحت وہ فوری تفصیلات تک بآسانی پہنچ جائیں گے
ایک اور مزید سہولت یہ بھی شامل کی جا سکتی ہے کہ ایک اندراج ”سید،،کے تحت بھی ضمنی حوالے کا دے دیا جائے۔یعنی :سید سلیمان ندوی دیکھیے:ندوی ،سید سلیمان۔ اس طرح یہ دونوں انداجات یا مقامات اصل انداراج تک پہنچنے میں معاون رہیں گے۔
بعض صورتوں میں اس جدید اصول کے تحت نام اس طرح بھی لکھے جاتے ہیں:
ڈاکٹر سید عبداللہ۔ عبداللہ، ڈاکٹر سید اور عبداللہ، سید، ڈاکٹر-
یعنی نام میں شامل خطبات، القاب اور کنیت وغیرہ کو بدل کو نام کے بنیادی اور اہم اجزا کو ترجیحا ترتیب دینے کا عمل آج زیادہ پسندیدہ ہے- جیسے:
ڈاکٹر سید محمد عبدالکریم، جسے اس ترتیب سے لکھا جانا چاہیے: عبدالکریم، سید محمد، ڈاکٹر-=
اگرچہ یہ اس طرح بھی ممکن ہے:
عبدالکریم، ڈاکٹر سید محمد
یا ایک مثال اور: مولانا محمد ثنا اللہ امرتسری، جسے ان صورتوں میں لکھا جاسکتا ہے:
امرتسری، محمد ثنا اللہ مولانا یا امرتسری، مولانا محمد ثناء اللہ
ان میں اور ایسی مثالوں میں اول الذکر: امرتسری، محمد ثناء اللہ، مولانا۔۔۔ ۔ زیادہ مناسب ہے، کیونکہ ضروری نہیں کہ مولانا ہر جگہ اس نام کے ساتھ لکھا ہو۔ یا ناموں کے سابقے: ڈاکٹر، علامہ، مولوی، مولانا، یا خطبات جیسے شمس العلماء، خان بہادر وغیرہ لازما" لکھے ہوں۔
اس ساری بحث اور ان مثالوں کے مطابق نام کا آخری جزو چونکہ بالعموم بدلتا نہیں یا نظر انداز نہیں ہوتا، اس لئے اندراج میں نام کے آخری جزو ہی کو شروع میں لکھ کر وقفہ کا نشان (،) لگا کر نام کا بقیہ جزو یا اجزاء اوپر دی گئی مثالوں کے مطابق لکھنے سے بے قائدگی روا نہ رہے گی اور ہر نام کو تلاش کرتے ہوئے آخری جزو کو ملحوظ رکھنا ایک عادت سی بن جائے۔ جب کسی اشتباہ کا خدشہ ہو تو پھر نام کے ہر معروف جزو سے بھی ضمنی اندراج کر دینا چاہیےتاکہ ضمنی اندراج یا اندراجات کے توسط سے بھی اصل مقام تک پہنچا جائے۔
اب یہاں یہ سوال پیا ہوتا ہے کہ تصنیف سے قطع نظر اگر کوئی کتاب ترتیب یا تدوین متن پر مبنی یا مشتمل ہو تو اس صورت میں بنیادی حوالہ کس کا دیا جائے گا؟ اصل متن کے مصنف کا یا اس متن کے مرتب و مدون کا؟
4.2.7 ترتیب و تدوین کا حوالہ اور انداراج، مصنف کے نام سے یا مرتب کے نام سے؟
اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس کتاب کا حوالہ یا انداج کس طرح کریں گے؟
کتاب کا نام: "تاریخ فیروز شاہی" مصنفہ ضیاء الدین برنی، بہ تصحیح سرسید احمد خان، مطبوعہ، سرسید اکیڈمی، علی گڑھ 2005ء، عکسی اشاعت طبع اول، ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ، 1863ء
اس کتاب کا اصل مصنف ضیاء الدین برنی ہے، لیکن جو نسخہ یہاں استعمال ہوا ہے اسے سر سید احمد خان نے مرتب کیا ہے اور اس پر مقدمہ بھی لکھا ہے۔ اگر ہم نے اس کتاب کے متن کے صفحہ22 سے استفادہ کیا ہے تو حاشیے میں حوالہ اس طرح درج کریں:
برنی، ص 22
یہاں مصنف کا پورا نام یا "برنی، ضیا الدین" لکھنا ضروری نہیں، کیونکہ اس مصنف کی کوئی اور کتاب ہم نے اس مقالے میں استعمال نہیں کی اور برنی نام کا کوئی اور مصنف بھی اس مقالے کے لیے ہمارے استفادے میں نہیں آیا۔ ورنہ ہم یہاں برنی کا پورا نام لکھتے۔
حوالے سے قطع نظر، اس ماخذ کا اندراج " فہرست اسناد محولہ" میں اس طرح ہو گا:
برنی، ضیا الدین، 2005ء "تاریخ فیروز شاہی" بہ تصحیح و مقدمہ سر سید احمد خاں، سر سید اکیڈمی، علی گڑھ﴿ عکسی اشاعت، طبع اول ، ایشیاٹک سوسائٹی، کلکتہ، 1862ء﴾
لیکن اگر اس کتاب میں شامل سر سید احمد خاں کے تحریر کردہ مقدمے سے ہم نے استفادہ کیا ہے تو اس کا حوالہ، حاشیے میں یوں ہو گا:
خاں، سید احمد ، ص 7
اگر " فہرست اسناد محولہ" میں کوئی اور مصنف ایسا نہیں ، جس کا نام "خاں" کے تحت درج ہو تو پھر یہ حوالہ اس طرح درج ہو گا:
خاں، ص 7 ، یا خاں، مقدمہ، ص 7، یا خاں، مقدمہ " تاریخ فیروز شاہی"، ص 7
اور اکر سر سید کی کوئی اور تحریر بھی ہمارے اس مقالے میں استفادے میں آئی ہے تو پھر یہی حوالہ حاشیے میں اس طرح ہو گا:
خاں، سید احمد ، مقدمہ "تاریخ فیروز شاہی" ص 7
اور پھر "فہرست اسناد محولہ " میں اس کا اندراد اس طرح ہو گا:
خاں، سید احمد، سر، مقدمہ 2005ء " تاریخ فیروز شاہی"، مصنفہ ضیاء الدین برنی، سر سید اکیڈمی، علیگڑھ
اگر غالب کے کسی شعر یا غزل کا ہم حوالہ دینا چاہیں، جسے ہم نے "دیوان غالب " مرتبہ امتیاز علی خان عرشی، مطبوعہ انجمن ترقی اردو، علیگڑھ 1959ء ص 37 سے اخذ کیا ہے تو حاشیے میں حوالہ اس طرح دیا جائے گا:
غالب، ص 37
لیکن اگر غالط کے اور دیوان یا تصانیف ہمارے استفادے میں رہی ہیں تو یہ حوالہ اس طرح ہو گا:
غالب، مرتبہ عرشی، ص 37
لیکن اگر مقدمہ کے صفحہ 5 سے ہم نے استفادہ کیا ہے تو حاشیے میں حوالہ اس طرح دیا جائے گا:
عرشی، ص 5
اور اگر امتیاز علی خاں عرشی کی کوئی اور تصنیف ہمارے استفادے میں آئی ہے تو حوالہ یوں دیا جائے گا:
عرشی، مقدمہ"دیوان غالب"ص 5
لیکن عرشی اگر کوئی اور بھی ہو تو دونوں کے پورے نام اسی ترتیب سے لکھے جائیں گے ، جیسے:
عرشی، امتیاز علی خاں، مقدمہ "دیوان غالب" ص5
"فہرست اسناد محولہ" میں غالب اور عرشی کے اندراجات اس طرح اپنے اپنے مقام پر کیے جائیں گے:
عرشی ، امتیاز علی خاں، مقدمہ، 1959ء " دیوان غالب"، اسد اللہ خاں غالب، انجمن ترقی اردو، علی گڑھ
غالب، اسداللہ خاں، 1959 ء "دیوان غالب" مرتبہ امتیاز علی خاں عرشی، انجمن ترقی اردو، علی گڑھ
ترجمے کی صورت میں اگر درج ذیل کتاب کا حوالہ دینا مقصود ہو:
"ہندوستانی معاشرہ عہد وسطی میں" مصنفہ کنور محمد اشرف، اردو ترجمہ قمر الدین، نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، نئ دہلی، 1947ء ص 301
تو یہ حوالہ ، اگر اس مصنف کی اور اشرف نامی کسی اور مصنف کی کوئی اور کتاب استفادے میں نہ آئی ہو، تو حاشیے میں اس طرح آئے گا:
اشرف ص 301
یا اگر اس مصنف کی کوئی اور کتاب بھی استفادے میں آئی ہے تو حوالہ اس طرح دیا جائے گا:
اشرف، 1947ء ص 301
اگر اشرف نامی کوئی اور مصنف کی کتاب یا مقالہ استفادے میں آیا ہے تو یہ حوالے اس طرح ہوں گے:
اشرف ، کنور محمد، ص 301
یا
اشرف، کنور محمد، 1947ء ، ص 301
مترجم یا مرتب کا حوالہ اصل مصنف کے مقام پر ہر گز نہ آئے گا تا آنکہ مرتب یا مترجم کی ذاتی کاوش زیر بحث نہ آئے۔
یہاں یہ بات طے ہے کہ ترتیب و تدوین یا ترجمے کی صورت میں اندراج اصل مصنف کے نام سے ہو گا اور مقدمہ یا حواشی و تعلیقات لکھنے کی بنیاد پر اور زیر بحث آنے پر مرتب یا متر جم کا حوالہ مذکورہ بالا صورتوں میں دیا جائے گا۔
4.2.8 کیا مختصر مقالے میں کتابیات ضروری نہیں؟
بعض افراد کا خیال ہے کہ حاشیے میں کسی تصنیف یا جاخذ کا حوالہ اگر پہلے پہل آئے تو تمام تفصیلات اس کی درج ہونی چاہییں اور بعد میں اسے صرف بنیادی تفصیلات تک مختصر کر دیا جائے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کیا جائے؟ پہلی بات یہ ہے کہ جب فہرست اسناد محولہ یا کتابیات میں ساری تفصیلات یکجا ہوں تو پھر ان تفصیلات سے حاشیے کو کیوں بوجھل کیا جائے؟ دوسری بات یہ ہے کہ چاہے کام کتنا ہی تحقیقی نوعیت کا کیوں نہ ہو ایسے حوالے، حاشیے اور ضروری تفصیلات صرف چند خاص نسبت رکھنے والے قارئین کا درد سر ہوتے ہیں، عام افراد کو ان سے کوئی دلچسپی یا خاص نسبت نہیں رہتی ۔ صرف چند افراد کے لیے جو یوں بھی کتابیات کے ذریعے تفصیلات تک پہنچ سکتے ہیں، حاشیے کو غیر ضروری طوالت کیوں دی جائے، چنانچہ حاشیے میں ماخذ کا حوالہ ہر جگہ حد تک مختصر ترین ہی دینا چاہیے۔
یہاں ایک بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ ایسا ایک مکمل کتاب ، تحقیقی مقالہ ﴿تھیسس﴾یا ایک مفصل مقالے کے لیے تو ممکن ہے ،کسی مختصر مقالے لے لیے یہ کیوں کر مناست ہے؟ جس میں کتابیات یا "فہرست اسناد محولہ" شامل نہٰیں۔ یہ بات درست نہیں۔ ایک تحقیقی ماخذ اور مصادر کے بغیر وجود میں نہیں آتا۔ ان ماخذ کی نشاندہی کے ذریعے ہی کسی مقالے کو استناد اور معیار حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح ہر مقالے میں چاہے وہ مختصر ہی کیوں نہ ہو، حوالوں اور استناد کو حاشیوں میں درج کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ایک کتابیات یا فہرست اسناد ضرور آخر میں شامل کرنی چاہیے تاکہ تمام ماخذ بہ یک نظر معلوم ہو جائیں۔ ان کی بنیاد پر ایک ہی نظر میں مقالے کے معیارکا اندازہ ہو جاتا ہے۔
شاید یہ بات عجیب لگے کہ میں جب کسی کتاب کو جس کا مزاج یا موضوع تحقیقی ہو ، ہاتھ میں لیتا ہوں تو اسے پلٹ کر پہلے پیچھے دیکھتا ہوں کہ اس کی کتابیات کس معیار اور کس سلیقے کی ہے؟ اور اگر اشاریہ بھی آخر میں شامل ہے تو اس اشاریے کے عنوانات کیا کیا ہیں؟ ان کے ذریعے محقق یا مصنف کی محنت، جستجو، رسائی اور سلیقے کا اندازہ ہوتا ہے۔ چنانچہ میں ایک مختصر مقالے میں بھی " فہرست اسناد محولہ" یا کتابیات کے حق میں ہوں اور اسے گونا گوں افادیت اور ساتھ ہی معیار کا ضامن سمجھتا ہوں، میں نے بعض نہایت عمدہ مختصر تحقیقی مقالے ایسے بھی دیکھے ہیں ، جن کے آخر میں کتابیات موجود تھی اور اس میں پانچ چھے ماخذ ہی درج تھے!
4.2.9 گمنام یا نا معلوم مصنفین کا حوالہ:
ایسے ماخذ جن کے مصنفین کا نام معلوم نہیں، یا ان پر نام موجود نہیں ، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کتاب کے عنوان کے تحت ہونا چاہیے۔ لیکن یہ غیر منطقی یا بلا جواز فیصلہ ہے۔ اس کے بجائے ایسی تمام کتابٰیں، جن کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ اسے کسی نے لکھا لیکن مصلحتا یا کسی اور وجہ سے اس پر اپنا نام تحریر نہیں کیا، یا دستبرد زمانہ سے جو عام طور پر مخطوطات کے ساتھ ہوتا رہا ہے ، مصنف کا نام مٹ گیا یا متعلقہ صفحہ ضائع ہو گیا تو ایسے ماخذ کو " نامعلوم" کے ذیل میں درج کرنا چاہیے۔ یعنی حاشیے میں اس طرح:
نامعلوم ، 2007ء ص 93
اور فہرست اسناد محولہ میں اس طرح
نامعلوم، 2007 ء "قیامت قریب ہے" ، نوح پبلشرز لاہور۔
اگر کتابیات یا "فہرست اسناد محولہ" میں "نامعلوم" صرف یہی ایک ہے تو حاشیے میں صرف اس طرح لکھا جائے گا:
نامعلوم، ص 93
بعض تصانیف، خصوصا حوالہ جاتی نوعیت کی ، جیسے انسا ئیکلو پیڈیا، لغات، فرہنگ، گزٹیئر وغیرہ پر کسی مصنف یا مرتب کا نام نہیں ہوتا۔ ایسی کتابیں بالعموم ادارے یا ناشر کے نام سے چھپتی ہیں ۔ لیکن چونکہ حاشیے میں ادارے یا ناشر کے نام کو درج کر کے اصل کتاب کا حوالہ اس کے نام کے ذیل میں دینا مناست ہے ۔ جیسے:
، ص 227“Encyclopedia Americana”
یا ، 1910ء، ج 8 ، ص 411“Imperial Gazetteer of India”
اگر اس گزٹییر کی کئی یا ایک سے زاید جلدیں استفادے میں آئی ہیں تو یہی حوالہ دینا ہو گا ورنہ صرف ایک جلد کی صورت میں یہ حوالہ اس قدر کافی ہے:
ص 411“Imperial Gazetteer of India”
ان دونوں ماخذ کا اندراج " فہرست اسناد محولہ" میں صفحہ نمبر کے بغیر درج کیا جائے گا۔
اس قسم کی مثالوں کے ذیل میں ، وہ کتابیں جو مصنف یا مرتبین کے ناموں سے شائع نہیں ہوتیں یا ان کے مرتبین کے نام تو ہوتے ہیں لیکن ان کی حیثیت مستقل نہیں ہوتی اور ایسی کتابیں یا ان کے منصوبے اداروں سے معروف ومتعلق ہوتے ہیں، "فہرست اسناد محولہ " میں ان کا حوالہ ان اداروں۔۔۔۔۔۔
کے ذیل میں دیا بانا چاہیے۔ مثلا:
پنجاب یونیورسٹی ، 1971- 1975 ء تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و بھارت''۔۔۔۔۔
اس تاریخ کی کسی ایک انفرادی جلد کا حوالہ حاشیے میں اس طرح دیا جائے گا:
پنجاب یونیورسٹی ، 1972 ء، ج 5 ، ص 69
یا ایک اور مثال ، " فہرست اسناد محولہ " میں :
اردو لغت بورڈ ، 1977 ء – 2007ء "" ج 1-21، کراچی انفرادی جلد کا حوالہ ، حاشیے میں:
اردو لغت بورڈ ، ج 20، ص 822
4.2.10 - ایک سے زائد مصنفین مرتبین کا حوالہ:
اگر کسی ماخذ کو ایک سے زیادہ مصنفین نے لکھا یا مرتب کیا ہے۔ تو ان کا اندراج ""فہرست اسناد محولہ"" مین اولین نام سے ہوگا اور تین نام تک تحریر کیے جائیں گے۔ اگر تین سے زیادہ نام ہین تو پھر ترتیب سے تین نام لکھ کر '' ۔۔۔ اور دیگر "" لکھا جائے گا۔ یہ صورت مصنفین کے لیے بھی ہو گی اور مرتبین کے لیے بھی ۔ اس صورت میں جو اولین نام درج ہوگا وہ اسی اصول کے تحت درج ہو گا، جو فہرست اسناد محولہ میں تمام ناموں کے ساتھ روارکھا جائے گا۔ یعنی نام کا آخری جزو پہلے ۔ جیسے :
قریشی محمد سلیم ، عاشور کاظمی ، ضیاء الدین شکیب اور
دیگر ، 2007ء ""جنگ آزادی کی دستاویزات " ہما
پبلشرز، لندن
لیکن یہی حوالہ حاشیے میں اس طرح ہوگا۔
قریشی ، محمد سلیم ، و دیگر ، ص 199
اور اگر ان ہی مرتبین کی کوئی اور کتاب استفادے میں آئی ہے ۔ تو اس حوالے میں ناموں کے بعد سن اشاعت کا اضافہ ہو جائے گا۔
قریشی ، محمد سلیم ، و دیگر ، 2007 ء، ص 199
4.2.10.1۔ بالواسطہ حوالے:
تحقیق میں استناد کی بڑی اہمیت ہے اور مآخذ کی نشاندہی اور سند کے بغیر کوئی تحقیق معیاری اور معتبر نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ ایک محقق کے لیے ضروری ہے کہ وہ موضوع سے متعلق بنیادی ماخذ تک رسائی حاصل کرے اور اس سے راست استفادہ کرے اور اس کے بعد ضروری تفصیلات کے ساتھ حوالہ دے۔ بعض صورتوں میں اگر وہ بنیادی ماخذ نایاب یا کمیاب ہو اور کسی صورت دستیاب نہ ہور سکے جبکہ کسی اور محقق یا مصنف نے جو معتبر اور قابل بھروسہ ہو- اس سے کسی وقت استفادہ کر چکا ہو اور اس ماخذ سے متعلق اس کی دی ہوئی معلومات ہمارے کا م کر رہی ہوں تو ہم اس ماخذ سے ضروری استفادہ کر کے اس کا حوالہ اس محقق یا مصنف کے وسیلے سے دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر بابر بادشاہ کے تحریر کردہ "وقائع بابر" کا ایک اقتباس مجھے اپنے مقالے میں نقل کرنا ہے، جس کا ایک بہترین نسخہ تہران کے کتب خانہ سلطانیہ میں محفوظ ہے، مگر میں وہاں جانہیں سکتا اور اس کا عکس بھی بوجوہ حاصل نہیں کر سکتا ۔ لیکن اس نسخے کو بابر کے ایک ماہر
Similar topics
» اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول ۲
» تحقیقی عمل میں خاکے کی اہمیت
» تاریخ اسلام (اردو) از اکبر شاہ خان نجیب آبادی
» فواتح و خواتم سورالقرآن ایک تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ
» وحی کی حقیقت اور اہمیت اسلامی اور استشراقی افکار کا تحقیقی مطالعہ
» تحقیقی عمل میں خاکے کی اہمیت
» تاریخ اسلام (اردو) از اکبر شاہ خان نجیب آبادی
» فواتح و خواتم سورالقرآن ایک تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ
» وحی کی حقیقت اور اہمیت اسلامی اور استشراقی افکار کا تحقیقی مطالعہ
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Sun Aug 12, 2012 9:26 pm by عبدالحئ عابد
» Research Papers Thesis مقالات ایم اے،پی ایچ ڈی
Sun Aug 12, 2012 8:05 pm by عبدالحئ عابد
» تاریخ تفسیر ومفسرین
Wed Jul 11, 2012 4:54 pm by عبدالحئ عابد
» تفسیر تفہیم القرآن عربی: سید ابوالاعلیٰ مودودی
Fri Jun 15, 2012 4:20 pm by عبدالحئ عابد
» علم حدیث میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کی خدمات
Fri Jun 15, 2012 4:15 pm by عبدالحئ عابد
» حرمت سود: ابوالاعلیٰ مودودی
Fri Jun 15, 2012 4:12 pm by عبدالحئ عابد
» اگر اب بھی نہ جاگے تو: ازشمس نوید عثمانی
Sat May 14, 2011 4:48 am by عبدالحئ عابد
» کالکی اوتار اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم
Sat Apr 09, 2011 9:29 pm by عبدالحئ عابد
» نراشنس اور آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم
Sat Apr 09, 2011 9:24 pm by عبدالحئ عابد